رفیع پیر
پاکستان کے نامور ڈرامہ نگار‘ صدا کار اور اداکار جناب رفیع پیر21 مارچ 1900ء کو پیدا ہوئے تھے۔ رفیع پیر کے دادا‘ چچا اور والد سبھی گورنمنٹ کالج لاہور کے پڑھے ہوئے تھے۔ رفیع پیر نے بھی اسی کالج میں داخلہ لیا۔ ان دنوں تحریک عدم تعاون‘ تحریک خلافت اور جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے باعث انہوں نے کالج چھوڑ دیا اور سیاست میں حصہ لینے لگے۔ اس سلسلے میں ان کی گرفتاری کے وارنٹ بھی نکل آئے چنانچہ ان کے اہل خانہ نے انہیں لندن بھجوا دیا مگر وہ انگریزوں سے شدید نفرت کے باعث وہاں زیادہ دیر نہ ٹک سکے اور جرمنی چلے گئے۔ واپس آنے کے بعد وہ آل انڈیا ریڈیو کے لاہور اسٹیشن سے منسلک ہوگئے۔ ان دنوں زیڈ اے بخاری‘ سرور نیازی‘ لائنل فیلڈن سبھی ریڈیو کے پروگراموں کو خوب سے خوب تر بنانے کی کوششیں کررہے تھے۔ رفیع پیر نے اس دوران ریڈیو سے درجنوں ڈرامے کیے۔ وہ ڈرامہ لکھتے بھی تھے‘ بولتے بھی تھے اور ڈرامہ کرتے بھی تھے۔ لاہور اور دہلی اسٹیشنوں سے انہوں نے ایک طویل عرصے تک اپنی وابستگی قائم رکھی۔1946ء میں انہوں نے فلم ’’نیچا نگر‘‘ میں کام کیا۔ نیچا نگر کو کینز (فرانس) کے فلمی میلے میں انعام بھی ملا تھا۔
رفیع پیر نے ریڈیو کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے جن میں ان کا ڈرامہ ’’اکھیاں‘‘ بہت مشہور ہوا۔ اکھیاں ریڈیو سے نشر ہونے والا پنجابی کا پہلا ڈرامہ تھا۔ اکھیاں کے علاوہ انہوں نے ’’کوڑے گھٹ‘‘ اور ’’جدوں ساریاں آساں ٹٹ گیاں‘‘ جیسے ڈرامے بھی تحریر کیے۔ آخری ڈرامہ ٹیلی ویڑن کے لیے لکھا گیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب رفیع پیر کی بینائی زائل ہوگئی تھی‘ یہ ڈرامہ انہوں نے اپنے بچوں کو املا کروایا تھا۔
14اگست 1967 ء کو حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ مارچ 1974ء میں وہ بیمار ہوئے اور میو ہسپتال (لاہور) میں داخل کیے گئے جہاں 11 اپریل 1974ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔