گل جی
پاکستان کے نامور مصور اور خطاط پشاور میں 25 اکتوبر 1926ء کو پیدا ہونے والے محمد اسماعیل گل جی ایک سول انجینئر، مصور ،خطاط اور مجسمہ ساز کے طور پر معروف ہیں۔ انھوں نے مصوری کا آغاز امریکہ میں بحثییت انجنیئر اپنی تعلیم کے حصول کے دوران کیا۔ یہ تعلیم انہوں نے کولمبیا اور ہارورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی۔
گل جی کی تصاویر کی پہلی نمائش 1950 میں منعقد ہوئی۔ 1959 سے پہلے تک گل جی کا فن ایک عام مصور کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ یہی دور تھا جب انہوں نے افغانستان کے پورے شاہی خاندان کی تصاویر تخلیق کیں۔ 1960ء کے بعد وہ ایک ایسے تجریدی مصور کے طور پر نمایاں ہوئے جس کی تخلیقات میں اسلامی خطاطی کی روایت کا خاصا دخل نظر آتا ہے۔
گل جی کو ہمیشہ نہ صرف حکومتی مدد بلکہ با اثر اور ذی حیثیت لوگوں کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔
اسلامی خطاطی کی روائیت سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ گل جی 50 اور 60 کی دھائیوں میں شروع ہونے والی ایکشن پینٹنگ موومنٹ سے بھی خاصے متاثر نظر آتے ہیں جن میں بین الاقوامی سطح پر جیکسن پولک اور ایلیین ہیمیلٹن جیسے فنکاروں کے کام کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ گل جی کے کام میں اسلامی خطاطی اور ایکشن پینٹنگ کی ہم آہنگی کی ایک وجہ شاید ان دونوں جہتوں میں ’طاقت کی روانی‘ کی قدر مشترک ہے۔گل جی کا اپنی تصاویر میں مختلف غیر روایتی چیزوں کا استعمال انہیں خاصا مختلف بناتا ہے۔ وہ اپنی آئل پینٹنگز میں شیشہ اور سونے اور چاندی کے ورق استعمال کرنے پر بھی جانے جاتے ہیں۔ 1960 ء کے بعد گل جی نے پینٹنگ کے ساتھ ساتھ مجسمہ سازی کی طرف بھی توجہ دی جو ان کی پینٹنگز کی طرح اسلامی خطاطی سے متاثر نظر آتی ہے۔ تانبے میں ڈھالے گئے یہ فن پارے اسلامی خطاطی سے نہ صرف دیکھنے میں متاثر لگتے ہیں بلکہ بعض قرآنی آیات کی تشریح کے طور پر تخلیق کیے گئے ہیں۔
ان کی پینٹگز چمکدار اور رنگوں سے بھرپور ہوتی تھیں جس میں ان کی حساسیت اور شدتِ جذبات کی جھلک نظر آتی۔ان کی خطاطی کے چند نمونے اسلام آباد میں فیصل مسجد میں آویزاں کیے گئے ہیں۔ دنیا کی کئی مشہور ہستیوں اور سربراہ مملکت کی تصاویر انہوں نے بنائیں۔ فیصل مسجد کے میناروں پر موجود چاند بھی گل جی کی ڈیزائن کردہ ہیں۔ پاکستان کا پارلیمنٹ ہاؤس بھی ان کی مصوری سے مزین ہے۔
حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں 14اگست 1970ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔
گل جی 19 دسمبر 2007ء کی اپنی رہائش گاہ میں اپنی اہلیہ اور نوکرانی سمیت مردہ حالت میں پائے گئے۔ ان کی موت کے اسباب کا آج تک علم نہیں ہوسکا ہے۔