Shakir Ali
صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی۔ شاکر علی

شاکر علی

پاکستان میں تجریدی مصوری کے بانی اور نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے سابق پرنسپل شاکر علی 6 مارچ 1914ء کو رام پور میں پیدا ہوئے تھے۔ مصوری کی ابتدائی تعلیم جے جے اسکول آف آرٹس بمبئی سے حاصل کرنے کے بعد وہ انگلستان چلے گئے جہاں انہوں نے فن مصوری کا تین سالہ کورس مکمل کیا۔ انہیں کچھ عرصہ فرانس کے ممتاز مصور آندرے لاہوتے (Andre L'Hote) کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ 1951ء میں پاکستان آگئے اور 1952ء میں میو اسکول آف آرٹس لاہور سے وابستہ ہوگئے جو بعد میں نیشنل کالج آف آرٹس کہلانے لگا۔ 1961ء میں وہ اسی کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور 1973ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
شاکر علی پاکستان میں تجریدی مصوری کے ساتھ ساتھ تجریدی خطاطی کے بانیوں میں بھی شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے آیات قرآنی کو تجریدی انداز میں لکھنے کی جو بنا ڈالی اسے بعد ازاں حنیف رامے‘ صادقین‘ آفتاب احمد‘ اسلم کمال‘ شفیق فاروقی‘ نیر احسان رشید‘ گل جی اور شکیل اسماعیل نے بام عروج تک پہنچا دیا۔ حکومت پاکستان نے فن مصوری میں ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 14 اگست 1966ء  و صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور 1971ء  میں ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔
شاکر علی کا انتقال 27 جنوری 1975ء کو لاہور میں ہوا۔ وہ لاہور میں گارڈن ٹائون کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

UP