جنیوا معاہدہ
٭14 اپریل 1988ء وہ تاریخی دن تھا جب جنیوا میں افغانستان سے سوویت فوجوں کے انخلا کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ یہ معاہدہ چھ سال کی انتھک کوششوں سے طے پایا۔ اس سمجھوتے پر جنیوا میں اقوام متحدہ کے یورپی ہیڈ کوارٹرز میں پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق شام پانچ بجے پاکستان کے اس وقت کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ زین نورانی اور کابل انتظامیہ کے وزیر خارجہ عبدالوکیل نے دستخط کئے جبکہ سوویت یونین کے وزیر خارجہ ایڈورڈ شیوارڈ ناڈزے اور امریکہ کے وزیر خارجہ جارج شلز نے بطور ضامن دستخط ثبت کئے اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل پیریز ڈیکویار نے تقریب کی صدارت کی صدارت کی اور اقوام متحدہ کی طرف سے دستخط کئے۔
38 صفحات پر مشتمل اس تاریخی معاہدے میں طے پایا کہ افغانستان سے روسی فوجوں کا انخلا 15 مئی 1988ء سے شروع ہوکر 15 فروری 1989ء کو مکمل ہوجائے گا۔ جبکہ 15 اگست تک نصف فوجیں واپس چلی جائیں۔ معاہدہ پر عملدرآمد کی نگرانی اقوام متحدہ کرے گی۔ کابل حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا ڈیگوکارڈویز افغانستان میں وسیع بنیادوں پر نئی حکومت تشکیل دینے کی کوشش کریں گے جس میں مجاہدین کی شرکت کو یقینی بنایا جائے گا۔
جونیجو حکومت جنیوا معاہدہ کی تکمیل کو اپنا تاریخی کارنامہ تصور کرتی تھی۔ صدر ضیاء بھی اسے ایک معجزے سے تعبیر کرچکے تھے، لیکن اپنی بعض بنیادی خامیوں کے باعث یہ معاہدہ مسئلہ کا مکمل حل پیش نہیں کرتا تھا۔ اس کے نتیجے میں روسی افواج کا انخلا تو یقینی ہوگیا تھا لیکن مسئلہ کے حل کے لئے صرف اتنا ہی کافی نہ تھا۔
ہونا یہ چاہئے تھا کہ اپنی فوجوں کی واپسی کے ساتھ روس اس بات کی ضمانت بھی دیتا کہ وہ بعد میں کابل حکومت کی حمایت جاری نہیں رکھے گا۔ افغانستان کے اندر خونریزی ختم ہوجائے گی اور ایسا سازگار ماحول پیدا ہوجائے گا جس میں مہاجرین اپنے گھروں کو واپس جائیں گے اور نجیب حکومت کے خاتمے کے بعد وہاں ایک قابل قبول وسیع البنیاد حکومت کا قیام عمل میں آئے گا مگر ایسا نہ ہوسکا اور افغانستان سے روسی افواج کی واپسی کے باوجود وہاں آج تک امن قائم نہیں ہوسکا ہے۔