بابا جی اے چشتی
پاکستان کے نامور فلمی موسیقار بابا جی اے چشتی کا پورا نام غلام احمد چشتی تھا اور وہ 1905ء میں گانا چور ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔ بابا چشتی نے اپنی زندگی کا آغاز آغا حشر کاشمیری کے تھیٹر سے کیا۔ ان کی وفات کے بعد وہ ایک ریکارڈنگ کمپنی سے منسلک ہوگئے جہاں انہوں نے جدن بائی اور امیر بائی کرناٹکی کے چند ریکارڈ تیار کئے۔ بطور موسیقار ان کی پہلی فلم ’’دنیا‘‘ تھی جو 1936ء میں لاہور میں بنی تھی۔ بابا چشتی نے کچھ وقت کلکتہ اور بمبئی میں بھی گزارا۔ 1949ء میں جب وہ پاکستان آئے تو اس وقت تک وہ 17 فلموں کی موسیقی ترتیب دے چکے تھے جن میں فلم سوہنی مہینوال، شکریہ اور جگنو کے نام سرفہرست تھے۔ پاکستان میں بابا چشتی کی پہلی فلم ’’شاہدہ‘‘ تھی۔ یہاں انہوں نے مجموعی طور پر 152 فلموں کی موسیقی ترتیب دی ۔ ان کی مشہور فلموں میں پھیرے، مندری، لارے، گھبرو، بلو، سسی، پتن، نوکر، دلا بھٹی، لخت جگر، ماہی منڈا، مس 56، یکے والی، گمراہ، خیبر میل، مٹی دیاں مورتاں، سہتی، رانی خان، عجب خان، ڈاچی، چن مکھناں، ماں پتر، قادرا، چن پتر، بھائی چارہ، رب راکھا، غیرت تے قانون، چن تارا اور قاتل تے مفرور شامل ہیں۔ بابا چشتی نے جن گلوکاروں کو فلمی صنعت سے متعارف کروایا ان میں ملکہ ترنم نورجہاں، زبیدہ خانم، سلیم رضا، نسیم بیگم، نذیر بیگم، مالا، مسعود رانا اور پرویز مہدی کے نام شامل ہیں جبکہ ان کے شاگرد موسیقاروں میں رحمن ورما اور خیام کے نام سرفہرست ہیں۔
حکومت پاکستان نے بابا جی اے چشتی کو 14اگست1989ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔
بابا چشتی 25 دسمبر 1994ء کو لاہور میں وفات پاگئے۔ وہ لاہور میں قبرستان سوڈیوال، ملتان روڈ میں آسودہ خاک ہیں۔