آغا شاعر قزلباش
٭5 مارچ 1871ء اردو کے نامور شاعر آغا شاعر قزلباش کی تاریخ پیدائش ہے۔
آغا شاعر قزلباش کا اصل نام آغامظفر علی بیگ قزلباش تھا ۔ ابتدا میں وہ طالب دہلوی کے شاگرد تھے پھر حیدرآباد دکن جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کی اور وہیں سے شوخیٔ مضمون اور روزمرہ کا بے تکلف استعمال آپ کے کلام کا جز و لازمی بن گیا۔
آغا شاعر قزلباش ایک اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انہوں نے جو چند ڈرامے لکھے ان میں حور عرب اور قتل بے نظیر زیادہ مشہور ہوئے۔ وہ ترجمہ کرنے میں بھی کمال کا درجہ رکھتے تھے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن پاک کا منظوم ترجمہ ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے عمر خیام کے رباعیات کا بھی منظوم اردو ترجمہ کیا جو خمکدہ ٔ خیام اوررباعیات خیام کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ آپ کی شعری تصانیف میں تیر و نشر، آویزہ گوش، دامن مریم اور پرواز کے نام شامل ہیں۔ آپ کا ایک نثری مجموعہ خمارستان کے نام سے بھی شائع ہوا تھا۔
آغاشاعر قزلباش کا ان انتقال 11 مارچ 1940ء کو لاہور میں ہوا۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
یہ کیسے بال کھولے آئے کیوں صورت بنی غم کی
تمہارے دشمنوں کو کیا پڑی تھی میرے ماتم کی