خواجہ خورشید انور
٭پاکستان کے نامور موسیقار خواجہ خورشید انور 21 مارچ 1912ء کو میانوالی میں پیدا ہوئے تھے۔
ان کے والد خواجہ فیروز الدین موسیقی کا بڑا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ خواجہ خورشید انور نے پنجاب یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور انڈین سول سروس کے تحریری امتحان میں ہندوستان بھر میں اوّل آئے تاہم بھگت سنگھ اور اس کی تحریک سے وابستگی کی وجہ سے وہ انٹرویو میں کامیاب نہ ہوسکے اور یہی ناکامی ان کی سب سے بڑی کامیابی بن گئی۔
خواجہ خورشید انور نے استاد توکل حسین خان صاحب سے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اور آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ 1940ء میں انہوں نے اے آر کاردار کی دعوت پر فلم کڑمائی کی موسیقی ترتیب دی۔ بعدازاں انہوں نے فلم اشارہ، پرکھ، یتیم، پروانہ، پگ ڈنڈی، آج اور کل، سنگھار، نشانہ اور نیلم پری کے نغمات بھی کمپوز کئے۔
1952ء میں وہ مستقل طور پر پاکستان کی فلمی صنعت سے وابستہ ہوگئے جہاں انہوںنے مجموعی طور پر 18 فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ان میں 15 فلمیں اردو زبان میں اور 3 فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں۔ پاکستان میں خواجہ صاحب کی مقبول ترین فلموں میں انتظار، زہر عشق، جھومر، کوئل، گھونگھٹ، چنگاری، ہمراز، حویلی، ہیر رانجھا، حیدر علی اور مرزا جٹ کے نام شامل ہیں۔ انہوں نے گھونگھٹ، چنگاری اور ہمراز سمیت چند فلموں کی ہدایات بھی دیں۔ 1955ء میںانہوں نے فلم انتظار کے لئے بہترین کہانی نگار، بہترین موسیقار اور بہترین فلم ساز کے صدارتی ایوارڈ بھی حاصل کئے۔ زہر عشق، گھونگھٹ اور ہیر رانجھا کی موسیقی ترتیب دینے پر انہیں نگار ایوارڈ سے نوازا گیا جبکہ حکومت پاکستان نے انہیں ستارۂ امتیاز کا اعزاز عطا کیا۔
خواجہ خورشید انور نے ریڈیو پاکستان کی سگنیچر ٹیون بھی تخلیق کی تھی۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ راگ مالا اور آہنگ خسروی ہے جس کے ذریعہ کلاسیکی موسیقی کے معروف گھرانوں کے 90 راگ محفوظ کردیئے گئے ہیں۔
30 اکتوبر 1984ء کو خواجہ خورشید انور دنیا سے رخصت ہوگئے۔