ماسٹر غلام حیدر
٭9 نومبر 1953ء کو پاکستان کے مشہور موسیقار ماسٹر غلام حیدر دنیا سے رخصت ہوئے۔
ماسٹر غلام حیدر 1906ء میں حیدرآباد (سندھ) میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدا ہی سے انہیں ہارمونیم بجانے سے بڑی دلچسپی تھی۔ اسی دلچسپی کے باعث وہ لاہور کے ایک تھیٹر سے وابستہ ہوگئے۔ اس وابستگی کے دوران انہیں ہندوستان کے مختلف شہروں کے سفر اور کئی اہم موسیقاروں سے ملاقات کا موقع ملا۔ 1932ء میں وہ لاہور کی ایک ریکارڈنگ کمپنی جین او فون سے منسلک ہوئے۔ اس ادارے سے استاد جھنڈے خان، پنڈت امرناتھ اور جی اے چشتی بھی منسلک تھے۔ ماسٹر غلام حیدر کچھ عرصہ استاد جھنڈے خان کے معاون بھی رہے۔
1933ء میں اے آر کاردار کی فلم سورگ کی سیڑھی سے ان کے فلمی سفر کا آغاز ہوا، اس کے بعد انہوں نے فلم مجنوں کی موسیقی ترتیب دی، تاہم ان کی شناخت فلم ساز اور ہدایت کار دل سکھ پنچولی کی فلم گل بکائولی بنی جو 1938ء میں نمائش پذیر ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے لاہور میں بننے والی کئی مزید فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں یملا جٹ، خزانچی، چوہدری اور خاندان کے نام شامل ہیں۔ 1944ء میں وہ ہدایت کار محبوب کی دعوت پر بمبئی منتقل ہوگئے۔ بمبئی کے قیام کے دوران ان کی جن فلموں نے کامیابی حاصل کی ان میں ہمایوں، چل چل رے نوجوان، بیرم خان، جگ بیتی، شمع، مہندی، مجبور اور شہید کے نام سرفہرست ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں ماسٹر غلام حیدر واپس لاہور آگئے۔ یہاں انہوں نے فلم شاہدہ، بے قرار، اکیلی، غلام اور گلنار سمیت 7 فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کی آخری فلم گلنار تھی جو ان کی وفات سے 3 روز قبل ریلیز ہوئی تھی۔
ماسٹر غلام حیدر کا شمار رجحان ساز موسیقاروں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے برصغیر کی فلمی موسیقی کو ایک نیا رنگ دیا۔ وہ پہلے موسیقار ہیں جنہوں نے پنجاب کی لوک دھنوں کو اپنے گیتوں میں استعمال کیا۔ انہوں نے کئی نامور گلوکارائوں کو فلمی صنعت سے متعارف کروایا جن میں زینت بیگم، شمشاد بیگم، نورجہاں اور لتا منگیشکر کے نام سرفہرست ہیں۔
ماسٹر غلام حیدر لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔