Death of Zameer Niazi
ضمیر نیازی کی وفات

11جون

2004ء:ضمیر نیازی کی وفات

٭11 جون 2004ء کو پاکستان کے نامور صحافی، مصنف اور آزادیٔ صحافت کے علم بردار ضمیر نیازی کراچی میں وفات پاگئے اور ابو الحسن اصفہانی روڈ پر واقع قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
ضمیر نیازی کا اصل نام ابراہیم جان محمد درویش تھا اور وہ 8 مارچ 1927ء کو بمبئی میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1942ء میں ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کی تحریک سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور صحافت کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے جہاں انہوں نے روزنامہ ’’ڈان‘‘ سے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔ 1965ء میں وہ روزنامہ ’’بزنس ریکارڈر‘‘ سے منسلک ہوئے اور پھر اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی اخبار سے وابستہ رہے۔ ضمیر نیازی نے 1986ء میں Press in Chains کے نام سے پاکستانی صحافت پر گزرنے والی پابندیوں کی داستان تحریر کی۔ یہ کتاب بے حد مقبول ہوئی اور اس کے متعدد ایڈیشن اور تراجم شامل ہوئے۔ اس کے بعد جناب ضمیر نیازی نے 1992ء میں Press Under Siegeاور 1994ء میں Web of Censorship کے نام سے مزید دو کتابیں تحریر کیں جن میں صحافت پر حکومتی اور مختلف تنظیموں کے دبائو اور پاکستان نے سنسر شپ کی تاریخ رقم کی گئی تھی۔ ان کی دیگر تصانیف میں باغبان صحرا ، انگلیاں فگار اپنی، حکایات خونچکاں اور پاکستان کے ایٹمی دھماکے کے ردعمل میں لکھی گئی تحریروں کا انتخاب ’’زمین کا نوحہ‘‘ شامل ہیں۔
1994ء حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا جسے اگلے برس کراچی کے 6 اخبارات پر پابندی عائد ہونے کے بعد انہوں نے احتجاجاً واپس کردیا تھا۔ انہیں جامعہ کراچی نے بھی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کرنے کا اعلان کیا تھا مگر انہوں نے اسے قبول کرنے کے لئے گورنر ہائوس جانے سے انکار کردیا تھا۔

UP