بدر اوّل
٭ 16 جولائی 1990ء کا دن، اس خواہش کی تکمیل کا دن ہے جو ہر پاکستانی کے دل میں برسوں سے مچل رہی تھی۔ یعنی خلائی ٹیکنالوجی کے حصول کی خواہش۔ جو عوامی جمہوریہ چین کے خلائی مرکز ژی چن سیٹلائٹ لائٹ لانچنگ سینٹر سے چینی راکٹ لانگ مارچ ٹو۔ای لارج وہیکل کی کامیاب پرواز کے بعد پوری ہوئی۔ اس راکٹ نے پاکستان ہی نہیں عالم اسلام میں تیار کردہ پہلا مصنوعی سیارہ ’’بدر اوّل‘‘ خلا میں چھوڑا تھا۔
بدر اوّل کا ڈیزائن، پاکستان کمیشن برائے خلائی و بالا فضائی تحقیق جیسے عرف عام میں سپارکو کہا جاتا ہے ماہرین نے خود ہی تیار کیا تھا۔ بدر اوّل تیس ماہرین کی ایک سال کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں تیار ہوا تھا اور پاور سپلائی ٹریکنگ، ٹیلی میٹری اور ٹیلی کمانڈ جیسے کئی نظاموں پر مشتمل تھا۔ اس کی تیاری پر تقریباً ڈھائی کروڑ روپے لاگت آئی تھی۔
’’ بدر اوّل‘‘ اگرچہ 17 فروری 1989ء کو تیار ہوگیا تھا مگر بعض وجوہات کی بنا پر اس کا خلائی سفر ایک سال پانچ ماہ تک التوا میں رہا۔ پھر 16 جولائی 1990ء کا تاریخی دن آیا جب اسے پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق صبح 5 بجکر 50 منٹ پر بحرالکاہل میں فلپائن اور تائیوان کے درمیان مدار میں چھوڑا گیا۔ اسی صبح 7 بجکر 15 منٹ پر اسے سپارکو کے لاہور اور کراچی کے زمینی ٹریکنگ اسٹیشنوں پر کامیابی سے دیکھا گیا اور اسے مسلسل آٹھ منٹ تک ٹریک کیا گیا۔
یہ خلا میں پاکستان کا پہلا قدم تھا۔
بدر اوّل کی شکل دائرہ نما تھی۔ اس کے 26 رخ تھے۔ اس کی جسامت 3½ مکعب فٹ تھی جبکہ وزن 52 کلو گرام تھا۔ اس کا جدید الیکٹرانک نظام، زمینی مرکز سے معلومات حاصل کرنے، ذخیرہ کرنے اور پھر آگے فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ شمسی توانائی سے چلنے والا یہ مصنوعی سیارہ ہر 98 منٹ کے بعد زمین کے گرد اپنا چکر مکمل کرتا تھا۔ وہ 24 گھنٹوں میں چھ مرتبہ پاکستانی افق پر سے گزرتا تھا۔ وہ جس مدار پر محو سفر رہا اس کا زمین سے کم سے کم فاصلہ 211 کلو میٹر اور زیادہ سے زیادہ فاصلہ 992 کلو میٹر تھا جبکہ خط استوا پر اس کا زاویہ 28.65 درجے کا ہوتا تھا۔
بدر اوّل کا تجربہ خاصا کامیاب رہا۔ یہ مصنوعی سیارہ 20 اگست 1990ء تک معلومات اور اطلاعات فراہم کرتا رہا، بعدازاں خلا کی پہنائیوں میں گم ہوگیا۔