علامہ ابن حسن جارچوی
٭16جولائی 1973ء کو ممتاز عالم دین اور تحریک پاکستان کے رہنما علامہ سید ابن حسن رضوی جارچوی وفات پاگئے۔
وہ 21 مارچ 1904ء کو جارچہ ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے تھے ابھی پانچ برس کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا چنانچہ ان کی پرورش ان کے نانا نے کی۔ علامہ نے رام پور اورینٹل کالج سے مولوی فاضل اور منشی فاضل‘ میرٹھ سے انٹرنس‘ لاہور سے ایف اے‘ بی اے‘ ایم اے اور ایم او ایل اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ٹی کی سند حاصل کی۔ 1931ء سے 1938ء تک وہ جامعہ ملیہ کالج دہلی میں استاد رہے۔ 1938ء میں محمود آباد آگئے جہاں وہ راجہ صاحب محمود آباد کے اتالیق رہے۔ 1948ء سے 1951ء تک شیعہ ڈگری کالج لکھنو کے پرنسپل رہے پھر یکم اکتوبر 1951ء کو پاکستان چلے آئے۔
تحریک پاکستان کے دوران علامہ ابن حسن جارچوی مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن رہے۔ وہ ان دو افراد میں سے ایک تھے جنہیں قائد اعظم نے کرپس مشن کے سامنے بڑے فخر کے ساتھ پیش کیا تھا کہ اس مشن کو تخلیق پاکستان کا دینی پس منظر سمجھا سکیں۔علامہ جارچوی نے پاکستان آنے کے بعد عملی سیاست کا سلسلہ بھی جاری رکھا‘ تحریر و تقریر سے بھی منسلک رہے اور تدریس کے شغل سے بھی وابستہ رہے۔ وہ کراچی یونیورسٹی میں ’’شیعہ تھیالوجی‘‘ کے پہلے استاد تھے اور یہ شعبہ انہی کی کوششوں سے وجود میں آیا تھا۔
عمر کے آخری حصے میں انہوں نے ’’انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اینڈ کلچرل ریسرچ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ بنانے کا منصوبہ بنایا۔ اس مقصد کے لیے زمین بھی حاصل کرلی گئی تھی مگر عمر نے وفا نے کی ۔ علامہ ابن حسن جارچوی اسی انسٹیٹیوٹ کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔
علامہ نے متعدد کتابیں بھی یادگار چھوڑیں جن میں فلسفۂ آلِ محمد، بصیرت افروز مجالس‘ شہیدِ نینوا‘ جدید ذاکری‘ علی کاطرز جہانبانی اور مقدمہ فلسفۂ آلِ محمد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے زوال رومۃ الکبریٰ کے حصہ اسلام کو بھی اردو میں منتقل کیا تھا جو شائع ہوچکا ہے۔