مشرقی پاکستان
٭1970ء کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صدر یحییٰ خان انتخابات کے فوراً بعد قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے اقتدار عوامی لیگ کے سپرد کردیتے۔ مگر عوامی لیگ ملک کا آئین چھ نکات کی بنیاد پر تیار کرنا چاہتی تھی جو صریحاً ملک کے ٹوٹنے کی دستاویز تھے۔
صدر یحییٰ خان نے ملک کے دونوں بازئوں کے سیاست دانوں کو مذاکرات کے ذریعے کسی متفقہ حل پر پہنچنے کے لیے آمادہ کرنا چاہا مگر حالات دن بدن بد سے بدتر ہوتے چلے گئے حتیٰ کہ مارچ 1971ء کے اوائل میں عوامی لیگ نے‘ جسے بھارت کی آشیرواد بھی حاصل تھی‘ سول نافرمانی کا اعلان کردیا۔ مارچ کے تیسرے ہفتے میں صدر یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو‘ عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن سے مذاکرات کے لیے ڈھاکا پہنچے مگر انہی مذاکرات کے دوران 23 مارچ 1971ء کو عوامی لیگ نے یوم پاکستان کی بجائے یوم مزاحمت منایا۔ اس دن عمارتوں پر بنگلہ دیش کا پرچم لہرایا گیا اور شیخ مجیب الرحمن نے ہتھیار بند دستوں کی سلامی لی۔
اس صریحاً بغاوت سے نمٹنے کے لیے جنرل یحییٰ خان نے فوجی ایکشن کا منصوبہ تیار کیا۔ اس منصوبے کو آپریشن سرچ لائٹ کا نام دیا گیا۔ اس کے نگراں میجر جنرل رائو فرمان علی اور میجر جنرل خادم حسین راجہ تھے۔ اس آپریشن کا آغاز 26 مارچ 1971ء کو رات ایک بجے ہوا۔ شیخ مجیب الرحمن گرفتار کرلیے گئے لیکن ان کے تمام ساتھی بھارت فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ عوامی لیگ کی عسکری تنظیم مکتی باہنی نے‘ جس کے سربراہ کرنل عثمانی تھے‘ بھارتی اسلحہ کی طاقت اور تربیت کے زور پر پاکستانی فوج سے بھرپور مقابلہ کیا۔ ڈھاکا تو ایک رات میں پرسکون ہوگیا لیکن مشرقی پاکستان کے دوسرے شہروں چٹاگانگ‘ راجشاہی اور پبنہ میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ فوج کو ان تمام علاقوں میں امن قائم کرنے کے لیے سخت جدوجہد کرنی پڑی۔
26 مارچ 1971ء ہی کو شام چھ بجے کے لگ بھگ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو‘ ڈھاکا سے کراچی پہنچے‘ کراچی پہنچ کر انہوں نے اپنے استقبال کے لیے آنے والوں سے مختصر خطاب کرتے ہوئے کہا ’’خدا کا شکر ہے‘ پاکستان بچ گیا۔‘‘