سلطان راہی
پاکستان کے معروف اداکار سلطان راہی کا اصل نام سلطان محمد تھا۔ انہوں نے اپنی فلمی زندگی کا آغاز فلم ’’باغی‘‘ میں ایک معمولی سے کردار سے کیا تھا اس کے بعد وہ خاصے عرصے تک فلموں میں چھوٹے موٹے کردار ہی ادا کرتے رہے۔ 1971ء میں فلم ’’بابل‘‘ میں انہیں ایک بدمعاش کا ثانوی ساکردار دیا گیا جس سے ان کی شہرت کا آغاز ہوا۔ 1972میں بطور ہیرو ان کی پہلی فلم ’’بشیرا‘‘ ریلیز ہوئی اس فلم نے انھیں بام عروج تک پہنچادیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ پاکستان کے فلمی صنعت کے سب سے مقبول اور مصروف اداکار بن گئے۔
سلطان راہی نے مجموعی طور پر 804 فلموں میں کام کیا جن میں500سے زیادہ فلمیں پنجابی زبان میں اور 160 فلمیں اردو زبان میں بنائی گئی تھیںجبکہ 50 سے زیادہ فلمیں ڈبل ورژن تھیں۔ ان میں سے 430 فلمیں ایسی تھیں جن کے ٹائٹل رول سلطان راہی نے ادا کئے تھے۔ ان کی مشہور فلموں میں بشیرا، شیر خان ،مولا جٹ، سالا صاحب، چن وریام، آخری جنگ اور شعلے کے نام سرفہرست ہیں۔ وہ ایک مخیر شخص تھے اور انہوں نے اپنے ذاتی خرچ پر کئی مساجد بھی تعمیر کروائی تھیں۔
9جنوری 1996ء کو جب وہ اسلام آباد سے براستہ جی ٹی روڈ لاہور آرہے تھے تو راستے میں چند نامعلوم افراد نے انہیں لوٹنا چاہا اور مزاحمت پر انھیں قتل کردیا۔ وہ لاہور میں شاہ شمس قادری کے مزارکے احاطے میں آسودہ خاک ہیں۔
حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں 14 اگست 1997ء کو بعد از مرگ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔