مولانا ظفر احمد انصاری
٭20 دسمبر 1991ء کو ممتاز عالم دین، ماہر قانون، دانشور، مصنف اور سابق رکن قومی اسمبلی مولانا ظفر احمد انصاری اسلام آباد وفات پاگئے۔
مولانا ظفر احمد انصاری 1908ء میں منڈارہ ضلع الہ آبادی میں پیدا ہوئے تھے۔ 1930ء میں انہوں نے الہ آباد یونیورسٹی گریجویشن اور 1933ء اسی یونیورسٹی فلسفے میں ایم اے کیا اور سرکاری ملازمت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ 1942ء میں ان کی ملاقات نوابزادہ لیاقت علی خان سے ہوئی جن کی تحریک پر آپ نے سرکاری ملازمت سے مستعفی ہوکر خود کو قیام پاکستان کی جدوجہد کے لئے وقف کردیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سینٹرل پارلیمانی بورڈ کے سیکریٹری اور آل انڈیا مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری کے عہدوں پر فائز رہے۔ قیام پاکستان کے بعد انہیں قرارداد مقاصد کا متن تیار کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1951ء میں ملک کے تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور انہیں مشہور 22نکات پر متفق کرنے کا مشکل کام بھی ان کا زندہ جاوید کارنامہ ہے۔ 1956ء اور 1973ء کے دساتیر کی تدوین اور تسوید میں بھی انہوں نے فعال کردار کیا۔ 1970ء کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے آزاد رکن منتخب ہوئے۔ 1983ء میں انہیں پاکستان کے سیاسی نظام کے تعین کے لئے دستوری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا، ضعیف العمری کے باوجود انہوں نے دن رات ایک کرکے یہ رپورٹ مکمل کی جو انصاری کمیشن رپورٹ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس رپورٹ میں انہوں نے ان اقدامات کی سفارش کی جو مستقبل کی حکومت کے لئے بنیاد بن سکتے تھے مگر اس وقت کے صدر، صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے اس کمیشن کی رپورٹ سے کوئی استفادہ نہیں کیا اور یوں مولانا ظفر احمد انصاری کی یہ محنت رائیگاں گئی۔
مولانا ظفر احمد انصاری نے اسلامی آئین اور ہمارے دستوری مسائل :نظریاتی پہلو کے نام سے دو کتابیں بھی تصنیف کیں۔ وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔