Death of Malik Ghulam Muhammad
ملک غلام محمد کی وفات

ملک غلام محمد/گورنر جنرل

ملک غلام محمد 29اگست 1895 ء کو پیدا ہوئے تھے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ ایم اے ایل ایل بی تک تعلیم حاصل کرنے بعد وہ انڈین آڈٹ اینڈ اکاونٹس کے محکمے میں شامل ہوئے جہاں انہوں نے مالیات کے بعض ایم عہدوں پر فرائض نبھائے۔ قیام پاکستان سے پہلے وہ ریاست حیدرآباد میں وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پاکستان کی پہلی وفاقی کابینہ میں وزیر خزانہ کا منصب سنبھالا۔شہید ملت نواب زادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جب خواجہ ناظم الدین نے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے لیے گورنر کا عہدہ چھوڑا توملک غلام محمد پاکستان کے گورنر جنرل بنے۔ ان کا دورِ حکومت پاکستان میں بیوروکریسی کی سازشوں اور گٹھ جوڑ کا آغاز تھا۔ غلام محمد نے ہی طاقت کے حصول کے لیے بنگالی وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر کے مشرقی پاکستان کے عوام میں مغربی پاکستان کے خلاف بداعتمادی کا بیج بویا۔ یہ برطرفی غلام محمد اور فوج کے سربراہ ایوب خان کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ممکن ہوسکی تھی کیونکہ صرف 2 ہفتے قبل ہی خواجہ ناظم الدین نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا تھا۔اس برطرفی کو جب عدالت میں چیلنج کیا گیا تو اس کے نتیجے میں جسٹس منیر کا وہ بدنام زمانہ فیصلہ آیا جس نے پاکستان میں فوج اور بیوروکریسی کی سازشوں کا ایک نہ رکنے والا باب کھول دیا۔ جسٹس منیر نے فیصلے میں یہ احمقانہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان نے مکمل آزادی حاصل نہیں کی ہے اور اب بھی جزوی طور پر تاج برطانیہ کا حصہ ہے۔ اس رو سے دستور ساز اسمبلی گورنر جنرل کے ماتحت ہے اور گورنر جنرل کو اسے برخاست کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس مقدمے میں صرف ایک غیر مسلم جج جسٹس کارنیلیس نے یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان مکمل طور پر آزاد مملکت ہے اور دستور ساز اسمبلی ایک خودمختار ادارہ ہے جسے گورنر جنرل برطرف نہیں کرسکتا۔ اسی مقدمے میں جسٹس منیر نے بدنامِ زمانہ نظریہ ضرورت بھی متعارف کروایا۔ملک غلام محمد کی بیماری کے باعث اسکندر مرزا نے پہلے قائم مقام اور پھر مستقل گورنر جنرل کا منصب سنبھالا اور یوں 7، اکتوبر 1955 ء کو ملک غلام محمد کا ہنگامہ خیز دور حکومت اپنے انجام کو پہنچا۔ کوئی ایک برس بعد 29اگست 1956 ء کو ملک غلام محمد کراچی میں وفات پاگئے اور گورا قبرستان کراچی کے عقب میں فوجی قبرستان میں پیوندخاک ہوئے۔

UP