Death of Santosh Kumar
سنتوش کمار کی وفات

سنتوش کمار

٭11جون 1982ء کو پاکستان کے نامور اور اپنے زمانے کے مقبول ترین فلمی اداکار سنتوش کمار دنیا سے رخصت ہوئے۔
سنتوش کمار کا تعلق ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام سید موسیٰ رضا تھا اور وہ 25 دسمبر 1926ء کو پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور پھر اپنے ایک دوست کے اصرار پر ایک فلم میں ہیرو کے رول کی پیشکش کو قبول کرلیا۔ انہوں نے بمبئی کی فلمی صنعت کی دو فلموں ’’اہنسا‘‘ اور ’’میری کہانی‘‘ میں کام کیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان چلے آئے جہاں انہوں نے مسعود پرویز کی فلم ’’بیلی‘‘ سے اپنے پاکستانی سفر کا آغاز کیا۔ منٹو کی کہانی پر بنائی گئی اس فلم میں صبیحہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ’’بیلی’’ باکس آفس پر کامیاب نہیں ہوئی تاہم اس کے بعد بننے والی فلموں ’’دو آنسو‘‘ اور ’’چن وے‘‘ نے سنتوش کمار کے کیریئر کو بڑا استحکام بخشا۔ بعدازاں شہری بابو، غلام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ، حمیدہ، سات لاکھ، وعدہ، سوال، مکھڑا اور موسیقار نے انہیں پاکستان کا سب سے بڑا اداکار بنادیا۔ اسی دوران ان کی شادی صبیحہ خانم سے ہوئی۔ یہ شادی بھی پاکستان کی فلمی صنعت کی کامیاب اور قابل رشک شادیوں میں شمار ہوتی ہے۔
سنتوش کمار کی دیگر اہم فلموں میں دامن، کنیز، دیور بھابی، تصویر، شام ڈھلے، انجمن، نائیلہ، چنگاری، لوری، گھونگھٹ اور پاک دامن کے نام سرفہرست ہیں۔ انہوں نے مجموعی طور پر 92 فلموں میں کام کیا جن میں 10 پنجابی فلمیں بھی شامل تھیں۔ انہوں نے 3 مرتبہ (وعدہ، گھونگھٹ اور دامن میں) بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔
سنتوش کمار لاہور میں مسلم ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

UP