Death of Iqbal bano, singer
اقبال بانو کی وفات

اقبال بانو

٭21 اپریل 2009ء کو غزل گائیکی کی نامور گلوکارہ اقبال بانو دنیا سے رخصت ہوئیں۔
اقبال بانو 1927ء کے لگ بھگ روہتک، حصار کے ایک موسیقی نواز گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ سات برس کی عمر میں وہ اپنے والدین کے ساتھ دہلی منتقل ہوئیں جہاں ان کے والد نے انہیں دلی گھرانے کے نامور کلاسیکی موسیقار استاد چاند خان کی شاگردی میں دے دیا۔ استاد چاند خان نے انہیں گلوکاری اور لے کاری سے آشنا کروایا اور ہلکی پھلکی موسیقی اور کلاسیکی موسیقی کی تربیت دی۔ 1945ء میں اقبال بانو نے آل انڈیا میوزک کانفرنس میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا جہاں سامعین نے ان کی سریلی اور منفرد آواز کو بے حد پسند کیا۔
کم و بیش اسی زمانے میں اقبال بانو کے فلمی سفر کا بھی آغاز ہوا۔ انہوں نے جن فلموں کو اپنی آواز سے سجایا ان میں ریحانہ، چپکے چپکے، ہیر رانجھا، غلط فہمی، مینا، مندری، گمنام، قاتل، آنکھ کا نشہ، کچیاں کلیاں، دل میں تو، حسرت، واہ رے زمانے، سرفروش، عشق لیلیٰ، شیرا، ناگن، بہروپیا، گل بکاولی، چراغ جلتا رہا اور ایک منزل دوراہیں کے نام سرفہرست ہیں۔
اقبال بانو نے جن شاعروں کی غزلوں کو اپنی گائیکی سے دوام بخشا ان میں مرزا غالب، داغ دہلوی، فیض احمد فیض،حفیظ ہوشیار پوری، قتیل شفائی، احمد فراز اور منیر نیازی کے نام سرفہرست تھے۔ وہ فارسی غزلوں کی گائیکی میں بھی بڑی شہرت رکھتی تھیں اور وہ شاہ افغانستان کی دعوت پر ہر سال جشن کابل میں بھی اپنی آواز کا جادو جگاتی رہی تھیں۔ اقبال بانوغزلوں کے علاوہ نظموں کی گائیکی میں بھی اختصاص رکھتی تھیں، خصوصاً فیض احمد فیض کی نظموں دشت تنہائی میں، میرے دل میرے مسافر، کب ٹھہرے کا درد، آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی اور لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے کو انہوں نے جس خوب صورتی سے گایا ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔
اقبال بانو کو حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ وہ لاہور میں احمد بلاک، گارڈن ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
 

UP