نیشنل پریس ٹرسٹ
٭27 مارچ 1964ء کو حکومت نے نیشنل پریس ٹرسٹ (این پی ٹی) کے قیام کا اعلان کردیا۔ بعض سینئر صحافیوں کے مطابق این پی ٹی خواجہ شہاب الدین کے اور بعض کے مطابق الطاف گوہر کے ذہن کی پیداوار تھا مگر قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اس ٹرسٹ کے خالق ایوب خان کے عہد کے ’’سپر بیوروکریٹ‘‘ غلام فاروق تھے جنہوں نے ایوب خان کے ایما پر اس کے خدوخال اور دائرہ کار متعین کیے تھے۔
این پی ٹی کے قیام کی مزاحمت سب سے پہلے پی ایف یو جے کی جانب سے ہوئی اس کے بعد ملک بھر کے مدیران اخبار و جرائد‘ ناشروں اور (کنونشن مسلم لیگ کے علاوہ) تمام سیاسی پارٹیوں نے اس کی مخالفت کی مگر حکمران جنتا نے اپنے منصوبے پر عمل کیا۔
غلام فاروق نے این پی ٹی کے لیے سرمایہ فراہم کرنے کی غرض سے ’’مخیر حضرات‘‘ کا ایک ڈھونگ تیار کیا اور 27 مارچ 1964ء کو اس کے قیام کا اعلان کردیا۔ ٹرسٹ کا ابتدائی سرمایہ پچاس لاکھ روپے تھا تاہم حکومت کی ایما پر نیشنل بنک آف پاکستان نے اسے ایک کروڑ روپے کا قرضہ بھی فراہم کیا تھا۔
این پی ٹی میں شروع شروع میں وہی اخبارات و جرائد شامل تھے جو میاں افتخار الدین کے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ پر قبضے کے ذریعے ہتھیائے گئے تھے لیکن بعد میں اس کے دائرے میں مارننگ نیوز‘ مشرق‘ دینک پاکستان‘ اخبار خواتین‘ اسپورٹس ٹائمز اور انجام بھی شامل ہوگئے۔ ابتدا ہی سے ٹرسٹ کے اخباروں نے سرکاری ترجمان کا کردار ادا کرنا شروع کردیا اور بغیر کسی خلش کے سرکاری موقف کی پیروی کرنے لگے۔ خوشامد اور چاکری نے اسم اعظم کی حیثیت اختیار کرلی اور وہ اخبارات جو کبھی حکومت کی کڑی نگرانی کیا کرتے تھے اب انتظامیہ کے پالتو بن کر رہ گئے۔
این پی ٹی لفظی اور کاغذی طور پر ایک آزاد ادارہ تھا لیکن حقیقت میں اس کے اخباروں نے ہمیشہ انتظامیہ کے ترجمان کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنے مالکان ایوب اور یحییٰ کی‘ یکساں جوش اور جذبے کے ساتھ غلامی کی۔ عوامی مارشل لا نافذ ہونے پر انہوں نے اپنی وفاداری کا رخ ’’عوامی صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر‘‘ کی جانب موڑ دیا‘ جن کے نامساعد دور میں وہ دن رات ان کی بدگوئی کیا کرتے تھے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ خود پاکستان پیپلز پارٹی‘ جس کے منشور میں‘ این پی ٹی کا توڑا جانا شامل تھا‘ این پی ٹی کو قومی تحویل میں رکھنے کی سب سے بڑی حامی بن گئی جس کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ جب جولائی 1977ء میں پیپلز پارٹی کے خلاف فوجی بغاوت برپا ہوئی تو یہ اخبارات اتنی ہی خوشی اور سہولت کے ساتھ پیپلزپارٹی کے مخالف بن گئے جیسے اس کی حکومت قائم ہونے پر اس کے حامی بن گئے تھے۔
1988ء میں نیشنل پریس ٹرسٹ توڑے جانے کا عمل پاکستان کے اس وزیر اعظم کے ذریعے پایہ تکمیل کو پہنچا جسے بظاہر پاکستان کا سب سے کمزور وزیر اعظم سمجھا جاتا تھا، یہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو تھے۔ بقول میر تقی میر:
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا