جنرل محمد ضیاء الحق
٭24 مارچ 1981ء کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے عبوری آئین کا حکم (The Provisional Constitution Order) جاری کیا جس کے تحت 1977ء کے بعد سے فوجی حکومت کی طرف سے کئے گئے تمام اقدامات کو قانون کے مطابق قرار دے دیا گیا۔ اس حکم کے تحت 1973ء کے آئین کے ڈھانچے ہی کو گرا دیا گیا اور محض ان دفعات کو برقرار رکھا گیا جن سے صدر کے اختیارات کو تقویت ملتی تھی۔ اس حکم کے تحت انتخابات صوبائی اسمبلیوں، پارلیمنٹ اور بنیادی انسانی حقوق کے متعلق آئین کی دفعات کو خارج کردیا گیا اور یہ اختیارات صدر نے خود سنبھال لئے کہ وہ جب چاہیں جس طرح چاہیں، آئین میں ترمیم کرسکتے ہیں۔ اس حکم نے عدلیہ کی آزادی کو بھی سلب کرلیا کیونکہ اس کے تحت مارشل لاء حکومت کے کسی اقدام یا کسی فعل کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا تھا نہ ہی مارشل لاء کی عدالتوں یا کسی ٹریبونل سے دی جانے والی سزا کو چیلنج کیا جاسکتا تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب سپریم کورٹ فوجی حکومت کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت شروع کرنے والی تھی۔ مگر یہ سماعت شروع ہونا تو کجا، اس حکم نے، سپریم کورٹ کے ان سابقہ فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دے دیا جو مارشل لاء کی حکومت اور فوجی ٹریبونلوں کے تمام فیصلوں کی قانونی حیثیت کے بارے میں صادر کئے گئے تھے۔
عبوری آئین کے تحت ججوں کو لازمی قرار دیا گیا تھا کہ وہ عبوری آئین کی وفاداری کا حلف ازسرنو اٹھائیں۔ 25 مارچ 1981ء کو صدر ضیاء الحق نے پریذیڈنسی راولپنڈی میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں سپریم کورٹ کے ججوں اور وفاقی شرعی عدالت کے ارکان سے ان کے عہدوں کا حلف لیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس انوارالحق نے عبوری آئین کے اجرا سے اختلاف کے باعث اپنے عہدے کا حلف نہیں اٹھایا۔ چنانچہ ان کی جگہ جسٹس حلیم کو، جو حلف اٹھانے پر رضامند ہوگئے تھے، سپریم کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کردیا گیا۔ان کے علاوہ جسٹس نسیم حسن شاہ، جسٹس عبدالقادر شیخ، جسٹس اسلم ریاض حسین اور جسٹس ایم ظلّہ نے بھی عبوری آئین کے تحت حلف اٹھایا۔
سپریم کورٹ کے تین اور ججوں جسٹس دراب پٹیل،جسٹس مشتاق حسین اور جسٹس فخر الدین جی ابراہیم، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس آفتاب فرخ، جسٹس عامر رضا، جسٹس ذکی الدین پال،جسٹس کے ایچ حفیظ اللہ، جسٹس خلیل الرحمن،جسٹس کے اے صمدانی، جسٹس خورشیداحمد، سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس عبدالحفیظ میمن، جسٹس جی ایم شاہ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس خدا بخش مری اور جسٹس ایم اے رشید نے بھی اپنے عہدوں کے حلف نہیں اٹھائے اور اس طرح وہ بھی اپنے عہدوں پر قائم نہیں رہے۔نصرت بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت ملک کے مستقل آئین میں کوئی ضروری تبدیلی کرنے کی اجازت ضرور دی تھی لیکن چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کویہ اجازت ہرگز نہیں دی گئی تھی کہ وہ اپنی مرضی کا عبوری آئین ملک پر مسلط کردیں۔ ان کا یہ اقدام اپنی حدود سے صریح تجاوز اور خود ان کے اپنے سابقہ اعلانات کے بھی برعکس تھا۔