Tashkent Declaration
معاہدہ تاشقند پر دستخط ہوئے

معاہدہ تاشقند

٭1965ء کو پاک بھارت جنگ کے بعد 10 جنوری 1966ء کو پاکستان کے صدر ایوب خان اور بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جو ’’معاہدہ تاشقند‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
اس معاہدے کے لیے پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان 3 جنوری 1966ء کو اپنے سولہ رکنی وفد کے ہمراہ روس کی جمہوریہ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچے ان کے وفد میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو‘ وزیر اطلاعات و نشریات خواجہ شہاب الدین اور وزیر تجارت غلام فاروق کے علاوہ اعلیٰ سول اور فوجی حکام شامل تھے۔
پاکستان اور بھارت کے یہ تاریخی مذاکرات جن میں سوویت یونین نے ثالث کے فرائض انجام دیے‘ 7 دن تک جاری رہے۔ اس دوران کئی مرتبہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے کیونکہ بھارت کے وزیر اعظم شاستری نے ان مذاکرات میں کشمیر کا ذکر شامل کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کے نزدیک یہ مسئلہ طے شدہ تھا اور یہ مذاکرات صرف ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ہورہے تھے جو حالیہ جنگ سے پیدا ہوئے تھے۔ پاکستانی وفد کا خیال تھا کہ ایسے حالات میں یہ مذاکرات بے مقصد ہوں گے اور پاکستانی وفد کو کوئی معاہدہ کیے بغیر واپس لوٹ جانا چاہیے۔
مگر مذاکرات کے آخری ایام میں سوویت وزیر اعظم کوسیجین نے صدر ایوب خان سے مسلسل کئی ملاقاتیں کیں اور انہیں بھارت کے ساتھ کسی نہ کسی سمجھوتہ پر پہنچنے پر رضامند کرلیا۔ یوں 10 جنوری 1966ء کو صدر ایوب خان اور وزیر اعظم شاستری نے معاہدہ تاشقند پر اپنے دستخط ثبت کردیے۔ اس معاہدے کے تحت طے پایا کہ دونوں ممالک کی مسلح افواج اگلے ڈیڑھ ماہ میں 5 اگست 1965ء سے پہلے والی پوزیشن پر واپس چلی جائیں گی اور دونوں ممالک مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے منشور پر پابند رہتے ہوئے باہمی مذاکرات کی بنیاد پر حل کریں گے۔
معاہدہ تاشقند پر دستخط صدر ایوب خان کی سیاسی زندگی کا سب سے غلط فیصلہ ثابت ہوئے۔ یہی وہ معاہدہ تھا جس کی بنا پر پاکستانی عوام میں ان کے خلاف غم و غصہ کی لہر پیدا ہوئی اور بالآخر ایوب خان کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ پاکستانی عوام کا آج تک یہی خیال ہے کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو تاشقند کی سرزمین پر ہمیشہ کے لیے دفن کردیا اور وہ جنگ‘ جو خود حکومتی دعوئوں کے مطابق میدان میں جیتی جاچکی تھی‘ معاہدے کی میز پر ہار دی گئی۔
 

UP