ذوالفقار علی بھٹو
٭20 دسمبر 1971ء کو صبح پونے گیارہ بجے پی آئی اے کا ایک طیارہ اسلام آباد ایر پورٹ پر اترا۔ اس طیارے میں ذوالفقار علی بھٹو وطن واپس پہنچے۔ وہ ایرپورٹ سے سیدھے ایوان صدر پہنچے جہاں انہوں نے دو گھنٹے تک یحییٰ خان سے مذاکرات کیے‘ شام ساڑھے چار بجے وہ ایوان صدر سے واپس نکلے تو ان کی کار پر صدر پاکستان کا پرچم لہرا رہا تھا۔
تفصیلات کے مطابق یحییٰ‘ بھٹو مذاکرات کے بعد‘ یحییٰ خان عہدہ صدارت اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر دونوں عہدوں سے مستعفی ہوگئے۔ غلام اسحق خان نے انتقال اقتدار کی رسوم ادا کیں اور ذوالفقار علی بھٹو نے صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر‘ دونوں عہدے سنبھال لیے۔
حلف اٹھانے کے بعد رات دس بجے صدر بھٹو نے قوم سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں انہوں نے کہا ’’ہم اپنی زندگی کے بدترین بحران سے دوچار ہیں‘ ہمیں ٹکڑے جمع کرنے ہیں‘ بہت چھوٹے چھوٹے ٹکڑے‘ ہم نیا پاکستان بنائیں گے‘ ایک ایسا پاکستان جس کا خواب قائد اعظم نے دیکھا تھا۔‘‘
اپنے اس خطاب میں انہوں نے مشرقی پاکستان سے مصالحت‘ سماجی اور اقتصادی انصاف کی ضرورت‘ بیرونی ممالک سے پاکستانی سرمائے کی واپسی‘ عوامی اصلاحات اور نیشنل عوامی پارٹی پر سے پابندی کے خاتمے کا اعلان کیا۔
اسی تقریر میں انہوں نے سابق صدر یحییٰ خان کے ساتھ ساتھ جنرل عبدالحمید خان‘ جنرل ایم ایم پیرزادہ‘ میجر جنرل عمر‘ میجر جنرل خداداد خان‘ میجر جنرل کیانی اور میجر جنرل مٹھا کو فوج سے سبکدوش کرنے اور لیفٹیننٹ جنرل گل حسن کو بری فوج کا قائم مقام کمانڈر انچیف مقرر کرنے کا اعلان کیا۔
اگلے روز بھٹو نے مختلف عہدوں پر تقرریاں کیں۔ انتقال اقتدار کے منتظم غلام اسحق خان‘ شاکر اللہ درانی کی جگہ اسٹیٹ بنک کے گورنر بنا دیے گئے۔ غلام مصطفی کھر کو پنجاب کا‘ ممتاز بھٹو کو سندھ کا، حیات محمد خان شیر پائو کو سرحد کا اور سردار غوث بخش رئیسانی کو بلوچستان کا گورنر مقرر کیا گیا اور نور الامین نائب صدر کے عہدے پر فائز کردئیے گئے۔
دو دن بعد 23 دسمبر 1971ء کو صدر ذوالفقار علی بھٹو کی 10 رکنی کابینہ کے وزرا نے اپنے عہدوں کے حلف اٹھا لیے۔ ان وزرا میں جے اے رحیم‘ میاں محمود علی قصوری‘ جسٹس فیض اللہ کندی‘ ڈاکٹر مبشر حسن‘ غلام مصطفی جتوئی‘ ملک معراج خالد‘ شیخ محمد رشید‘ رانا محمد حنیف‘ عبدالحفیظ پیرزادہ اور راجہ تری دیو رائے شامل تھے۔29 دسمبر کو غوث بخش رئیسانی صوبہ بلوچستان کے گورنر مقرر کردیے گئے۔