گوادر
٭8 ستمبر 1958ء کو گوادر پاکستان کا حصہ بن گیا۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اس شہر پر 1581ء میں پرتگیزیوں نے قبضہ کیا تھا۔ سترہویں صدی کے اوائل میں اس شہر پر گچکی بلوچوں کا قبضہ ہوا۔ 1736ء میں انہوں نے گوادر کو ایران کے نادر شاہ کے حوالے کردیا۔ تین سال بعد پھر گچکی قبیلہ برسراقتدار آگیا مگر 1778ء میں خان آف قلات نے گوادر پر قبضہ کرلیا۔
1784ء میں مسقط کے شہزادے سید سلطان نے اپنے باپ سے بغاوت کرکے جب مکران میں پناہ حاصل کی تو خان آف قلات ناصر خان اول نے ان کی بڑی خاطر مدارت کی اور ان کی مہمانی کے طور پر گوادر کا علاقہ ان کے حوالے کردیا۔ 1792ء میں سید سلطان مسقط اور اومان کے سلطان بن گئے لیکن انہوں نے گوادر کو اپنی عملداری میں شامل رکھا حالانکہ اب وہ گوادر کی آمدنی کے محتاج نہ تھے۔
انگریزوں نے جب قلات پر قبضہ کیا تو یہ صورتحال بدستور قائم رہی اور 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت بھی گوادر سلطنت اومان کا حصہ تھا۔
پاکستان نے اپنے قیام کے فوراً بعد گوادر کی بازیابی کے لیے آواز اٹھائی۔ 1949ء میں اس مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات بھی ہوئے جو کسی فیصلے کے بغیر ختم ہوئے۔ 1956ء میں جب سرفیروز خان نون پاکستان کے وزیر خارجہ بنے تو انہوں نے یہ مسئلہ دوبارہ زندہ کیا۔ 1957ء میں جب وہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے تو انہوں نے اس سلسلے میں یہ قانونی نکتہ اٹھایا کہ گوادر کی حیثیت ایک جاگیر کی ہے۔ چونکہ حکومت پاکستان نے وہ تمام جاگیریں منسوخ کردی ہیں جو حکومت برطانیہ نے بہت سے لوگوں کو اپنی خدمات کے صلہ میں یا دوسرے سیاسی اسباب کی بنا پر دی تھیں اس لیے گوادر کی جاگیر کی تنسیخ بھی کی جاسکتی ہے۔
برطانوی حکام نے پاکستان کے اس موقف کی تائید کی اور ان کی مدد کے باعث معاوضہ کی ادائی کے بعد گوادر کا علاقہ 8 ستمبر 1958ء کو پاکستان کا حصہ بن گیا اور آغا عبدالحمید نے صدر پاکستان کے نمائندہ کی حیثیت سے گوادر اور اس کے نواحی علاقوں کا نظم و نسق سنبھال لیا۔
یکم جولائی 1970ء کو ون یونٹ کے خاتمے کے بعد گوادر کا شہر صوبہ بلوچستان میں شامل ہوا اور ضلع مکران کا حصہ بن گیا لیکن اس شہر کی تجارتی اور ساحلی اہمیت کے باعث جلد ہی اسے مکمل ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔