

بشریٰ زیدی
٭15 اپریل 1985ء کو کراچی میں ناظم آباد چورنگی پر دو تیز رفتار بسوں نے سر سید گرلز کالج کی چند طالبات کو کچل دیا جن میں سے ایک طالبہ بشریٰ زیدی جاں بحق ہوگئی۔
اگلے روز چند طالبات نے اپنی ساتھی طالبہ کی ہلاکت پر ناظم آباد چورنگی پر چند پلے کارڈ اٹھا کر مظاہرہ کرناچاہا لیکن اس موقع پر پولیس نے حسب روایت بے تدبیری اور وحشت و بربریت کا مظاہرہ کیا۔ اس نے مظاہرہ کرنے والی طالبات پر اپنی گاڑی چڑھادی، آنسو گیس کے گولے پھینکے اور ان کے کالج میں زبردستی داخل ہوکر وہاں بھی شیلنگ اور لاٹھی چارج کا مظاہرہ شروع کردیا جس کے نتیجے میں متعدد طالبات زخمی اور بے ہوش ہوگئیں۔ جب یہ طالبات مرہم پٹی کروانے کے لئے عباسی شہید اسپتال پہنچیں تو وہاں بھی ان کی مڈبھیڑ پولیس سے ہوگئی۔ پولیس کے ساتھ ایک زخمی کانسٹیبل بھی تھا۔ پولیس چاہتی تھی کہ ڈاکٹر طالبات کی بجائے پہلے زخمی کانسٹیبل کی مرہم پٹی کریں۔ اس پر ڈاکٹروں اور پولیس والوں کی تکرار ہوگئی۔ پولیس نے اس موقع پر تدبر سے کام لینے کی بجائے ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی پٹائی شروع کردی اور شعبہ حادثات کے شیشے اور کائونٹر توڑ دیئے۔
پولیس کے اس رویہ کے باعث پورا شہر کراچی آگ اور دھویں کی لپیٹ میں آگیا۔ اس حادثے کے بعد پرسکون شہری زندگی آگ، گیس اور گولی کے جہنم میں دھکیل دی گئی۔ پورے شہر کراچی میں فسادات پھوٹ پڑے، متعدد دکانیں، بنک اور گاڑیاں نذر آتش کردی گئیں۔ نتیجتاً کراچی کے تمام تعلیمی ادارے بند کردیئے گئے اور متعدد علاقوں میں تاحکم ثانی کرفیو نافذکردیا گیا۔ ان ہنگاموں میں 9 افراد ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔
15 اپریل کے ٹریفک حادثے کے بعد تعصبات بھڑکانے کی ایک منظم تحریک شروع ہوگئی چونکہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کا کاروبار پختون بھائیوں کے ہاتھ میں ہے اور پولیس میں بھی پختون اور پنجابی افراد کی اکثریت ہے اس لئے ان ہنگاموں کو مہاجر اور پنجابی پٹھان فسادات کا رنگ دے دیا گیا اور پورا شہر فرقہ واریت اور لسانی فسادات کی زد میں آگیا۔
اس فرقہ واریت اور فساد کا سلسلہ آئندہ کئی سالوں تک جاری رہا اور ٹریفک کے ایک حادثے کو بہانہ بناکر کراچی جیسے پرامن اور باہمی الفت و محبت والے شہر میں لسانی اور علاقائی تعصبات کا زہر گھول دیا گیا۔