Death of Asad Amanat Ali
اسد امانت علی خان کی وفات

اسد امانت علی خان

٭8 اپریل 2007ء کو  پاکستان کے نامور کلاسیکی گائیک اسد امانت علی خان لندن میں وفات پاگئے۔
اسد امانت علی خان کا تعلق موسیقی کے مشہور پٹیالہ گھرانے سے تھا۔انہوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد امانت علی خان اور دادااستاد اختر حسین خان سے حاصل کی۔ اسد امانت علی خان نے اپنے چچا حامد علی خان کے ساتھ اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا اور ان دونوں کی جوڑی نے کلاسیکی گائیکی کو ایک نئی جہت دی۔ 1974ء میں استاد امانت علی خان کی اچانک وفات کے بعد اسد امانت علی خان نے ان کے گائے ہوئے خوب صورت نغموں خصوصاً انشا جی اٹھو اب کوچ کرو سے اپنی شہرت کے سفر کا آغاز کیا۔ انہوں نے کلاسیکل، نیم کلاسیکل، گیت، غزلیں اور فلمی گانے گائے جو اپنے دلکشی اور سریلے پن کی وجہ سے زبان زد عام ہوئے۔ انہوں نے جن فلموں کو اپنی گائیکی سے سجایاان میں شمع محبت، سہیلی، انتخاب، شیشے کا گھر، زندگی، ابھی تو میں جوان ہوں، ترانہ، آئی لو یو اور آندھی اور طوفان کے نام شامل ہیں۔ اسد امانت علی ایک بہت اچھے سوز خواں بھی تھے اور خصوصاً میر مونس لکھنوی کا سلام ’’مجرئی خلق میں ان آنکھوں نے کیا کیا دیکھا‘‘ پڑھنے میں اختصاص رکھتے تھے۔
حکومت پاکستان نے 2006ء میں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

UP