شکیب جلالی
٭12 نومبر 1966ء کو اس خبر نے کہ اردو کے صاحب اسلوب شاعر شکیب جلالی نے سرگودھا میں ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کرلی ہے، پوری ادبی دنیا کو سوگوار کردیا۔
شکیب جلالی کا اصل نام سید حسن رضوی تھا اور وہ یکم اکتوبر 1934ء کوعلی گڑھ کے قریب ایک قصبے جلالی میں پیدا ہوئے تھے۔ 1950ء میں وہ پاکستان آگئے جہاں ملازمتوں کے سلسلے میں وہ مختلف شہروں میں مقیم رہے۔شکیب جلالی‘ ایک منفرد اسلوب کے شاعر تھے۔ انہوں نے بلاشبہ غزل کو ایک نیا لہجہ دیا۔
ان کا شعری مجموعہ روشنی اے روشنی ان کے ناگہانی انتقال کے چھ برس بعد 1972ء میں لاہور سے شائع ہوا۔ اس مجموعہ کلام کا شمار اردو کے چند اہم ترین شعری مجموعوں میں ہوتا ہے۔ 2004ء میں لاہور ہی سے ان کے کلام کے کلیات بھی شائع ہوئی۔
شکیب جلالی نے صرف 32 برس کی عمر پائی مگر انہوں نے اتنی کم مہلت میں جو شاعری کی وہ انہیں اردو غزل میں ہمیشہ زندہ رکھے گی۔
آکر گرا تھا کوئی پرندہ لہو میں تر
تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر
……٭٭٭……
جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
نہ اتنی چلے، سر پھری ہوا سے کہو
شجر پہ ایک ہی پتہ دکھائی دیتا ہے
……٭٭٭……
شکیبؔ اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے