استاد منظور علی خان
نامور کلاسیکی موسیقار اور گائیک استاد استاد منظور علی خان 1930ء میں شکارپور میںپیدا ہوئے ان کا تعلق موسیقی کے گوالیار گھرانے سے تھا۔ استاد منظور علی خان کے پر دادا استاد شادی خان 1830ء میں خیرپور میرس میں آباد ہوئے تھے جہاں انہیں والی خیرپور میر مراد علی خان تالپور نے مدعو کیا تھا۔ استاد شادی خان کے پوتے جمالے خان تھے جنہوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد کریم بخش خان سے حاصل کی تھی اور اپنے چچا استاد گامن خان کی معیت میں گاتے تھے۔ استاد جمالے خان کے فرزند استاد مظور علی خان تھے۔ یہ خاندان دھرپد گانے میں مہارت رکھتا تھا۔
استاد منظور علی خاندان نے کلاسیکی موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد جمالی خان، استاد ہدی خاں اور استاد سیندو خان سے حاصل کی۔ وہ دھرپد کے ساتھ ساتھ خیال، ٹھمری، دادرا اور ٹپہ گانے میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ انہیں سندھ کی مقامی موسیقی کا بھی علم تھا کہا جاتا ہے کہ سندھی راگنیاں، جتنے صحیح انداز میں انہوں نے گائی ہیں اتنی اس سے پہلے کسی نے نہیں گائیں۔ انہوں نے کلاسیکی موسیقی اور سندھی موسیقی کے دو دریائوں کو ملا کر ایک نیاانداز دیا تھا۔
استاد منظور علی خان کو حکومت پاکستان نے 14 اگست 1978ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
استاد منظور علی خان کے شاگردوں میں محمد یوسف، فتح علی خان، عابدہ پروین، رجب علی، وحید علی، قمر سومرو، گلزار علی، عبداللطیف مہر اور وزیر سندھی کے نام سرفہرست ہیں۔
استاد منظور علی خان 8 ستمبر 1980ء کو ٹنڈو آدم میں وفات پاگئے اور وہیں پیوند خاک ہوئے۔