جنرل آصف نواز جنجوعہ
(سولہ اگست ۱۹۹۱ء تا آٹھ جنوری ۱۹۹۳ء)
جنرل آصف نواز جنجوعہ کا تعلق فنِ سپہ گری سے وابستہ خاندان کی تیسری نسل سے تھا۔ وہ بری فوج کے آخری سینڈ ہرسٹ گریجویٹ سربراہ تھے اور ملٹری اکیڈمی کاکول کے کمانڈر بھی رہے تھے۔
جنرل آصف نواز جنجوعہ 3 جنوری 1937ء کو چکری راجگان ضلع جہلم میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 1957میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا اور رائل ملٹری اکیڈمی سینڈہرسٹ سے بھی تربیت حاصل کی ۔
جب جنرل جنجوعہ کو بری فوج کا سربراہ بنایا گیا تو وہ سینیارٹی کے اعتبار سے جنرل شمیم عالم خان کے بعد دوسرے نمبر پر تھے۔ جنرل شمیم کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف نامزد کیا گیا۔
اپنی تعیناتی کے پہلے روز جنرل آصف نواز نے فرمان امروز جاری کیا جس میں انہوں نے زور دے کر کہا کہ ملک میں جمہوریت بحال ہو چکی ہے اور مسلح افواج کا سیاسی معاملات سے کوئی واسطہ نہیں ہے ، ہمیں سیاسی معاملات میں مداخلت سے گریز کرنا ہوگا ۔مگر ایسا نہ ہو سکا، جنرل آصف نواز کے دور میں بھی فوج کا سیاسی معاملات میں عمل دخل رہا مگر اس بار یہ معاملہ پس پردہ رہا ۔جنرل آصف نواز نے اپنے دور میں ،فوج میں موجود اسلامی انتہا پسندی کو کم کرنے کی کوشش کی ،اور امریکا اور بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ جنرل آصف نواز نے یہ کوشش کی کہ کسی طرح حکومت اور حزب اختلاف میں معاملات بہتر بنائے جائیں اور پس پردہ رابطوں کے ذریعے نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان ملاقات کروانے کی کوشش بھی کی ، جنرل آصف نواز کے جلد ہی وزیر اعظم نواز شریف سے اختلافات کا آغاز ہو گیا، وزیر اعظم کو شکایت تھی کہ جنرل آصف نواز سیاست دانوں سے رابطے کرتے ہیں اور ان سے حکومتی امور پر گفت گو کرتے ہیں جو ظاہر ہے کہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ جنرل ا ٓصف نواز کے قریبی ذرائع کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کے قریبی لوگ ان سے ملنے آتے تھے اور یہ درخواست کرتے تھے کہ نواز شریف کا تختہ الٹ دیں ، ان سیاست دانوں میں چوہدری پرویز الٰہی ، شیخ رشید احمد بھی شامل تھے ۔جنرل آصف نواز کی طرف سے ان سیاست دانوں کو یہی جواب دیا گیا کہ اپنے معاملات کو سیاسی طریقے سے اپنے طور پر حل کریں
جنرل آصف نواز کے دور میں سندھ میں 72بڑی مچھلیوں ،ڈاکوؤںاور پتھارے داروں کے خلاف آٓپریشن کا آغاز ہوا، یہ آپریشن اپنے آغاز میں ہی متنازع ہو گیا جب ٹنڈو بہاول میں غریب ہاریوں کو ڈاکو ظاہر کر کے ہلاک کر دیا گیا ، حقیقت سامنے آنے پر جنرل آصف نواز نے ذمے دار فوجی افسران کے خلاف قانونی کارروائی کی۔ اس واقعے کے بعد آپریشن کا رُخ کراچی کی جانب موڑ دیا گیا اور ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کا آغاز کر دیاگیا ۔ فوج کی سرپرستی میں ایم کیو ایم سے الگ ہونے والے افراد کو متبادل سیاسی قوت کے طور پر ایم کیو ایم حقیقی کے نام سے میدان سیاست میں اتارا گیا۔ اُدھر وفاق میں وزیر اعظم نواز شریف کو اطلاعات ملیں کہ ان کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔اُس زمانے میں لاہور اور راول پنڈی کی سڑکوں پر آصف نواز ملک کو بچاؤ کے نعرے پر مشتمل بینرز بھی آویزاں کیے گئے ۔ مگر جنرل آصف نواز کے قریبی ذرائع اس بات کی تردید کرتے رہے کہ ان کا سیاسی حکومت کے خلاف بغاوت یا مارشل لا نافذ کرنے کا ارادہ ہے۔ منتخب حکومت اور جنرل آصف نواز کے درمیان خلیج بڑھتی گئی ، اسی دوران جنوری 1993کی ایک صبح جنرل آصف نوازپُر اسرار حالات میں دل کا دورہ پڑنے سے اچانک انتقال کر گئے ۔ جنرل آصف نواز کی بیوہ نے الزام عائد کیا کہ ان کے شوہر کو حکومت وقت نے زہر دے کر قتل کیا ہے۔ اس الزام کی عدالتی تحقیقات ہوئیں جس میں یہ الزام غلط ثابت ہوا ۔