جنرل آصف نواز
٭8 جنوری 1993ء کو بری فوج کے سربراہ جنرل آصف نواز دل کا دورہ پڑنے کے باعث اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
چند یوم قبل 3 جنوری 1993ء کو انہوں نے اپنی 56 ویں سالگرہ منائی تھی۔ 8 جنوری کو اپنے روزمرہ کے معمول کے مطابق انہوں نے اپنی رہائش گاہ میں اپنے کمرہ میں ایکسر سائز سائیکلنگ شروع کی۔ اس ورزش کے دوران انہیں سینے میں درد کی شکایت ہوئی۔ انہیں فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروں کے ایک بورڈ نے سات گھنٹے تک ان کی جان بچانے کی جدوجہد کی مگر شام 3 بجکر 56 منٹ پر وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
جنرل آصف نواز ایک پیشہ ور فوجی افسر تھے۔ ان کی موت کا دکھ پورے پاکستان میں محسوس کیا گیا۔
جنرل آصف نواز کی وفات کے کوئی تین ماہ بعد ان کی بیوہ بیگم نزہت آصف نواز نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ ان کے شوہر کو سلو پوائزن دے کر قتل کیا گیا ہے اور اس قتل کے ذمہ دار حکمران بالخصوص چوہدری نثار علی اور بریگیڈیئر امتیاز ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے ان الزامات کا فوری نوٹس لیا اور اگلے ہی دن جسٹس شفیع الرحمن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل ایک خصوصی جوڈیشل کمیشن قائم کیا۔ اس کمیشن سے کہا گیا کہ وہ الزامات کے صحیح ہونے کا جائزہ لے اور موت کی اصل وجہ کا تعین کرے۔ 14 مئی 1993ء کو اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جنرل آصف نواز کی موت کو طبعی قرار دیا۔
جب جناب معین قریشی نگراں وزیراعظم بنے تو جنرل آصف نواز کی موت کا مسئلہ پھر سے اٹھایا گیا۔ چنانچہ یکم اکتوبر 1993ء کو جنرل آصف نواز کی نعش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا 13 دسمبر 1993ء کو حکومت پاکستان کے ایک سرکاری ترجمان نے پوسٹ مارٹم کی رپورٹوں کی روشنی میں اعلان کیا کہ جنرل آصف نواز کی وفات زہر خورانی سے نہیں بلکہ ہارٹ اٹیک سے ہوئی ہے۔ اس اعلان کے بعد ان کی موت کی تفتیش ختم کردی گئی۔