Hamood ur Rehman Commission
حمود الرحمن کمیشن کا قیام

حمود الرحمن کمیشن

٭دسمبر 1971ء میں سقوط ڈھاکا کے بعد اس دور کے واقعات اورسقوط کے اسباب کی تحقیقات کے لیے 24 دسمبر 1971ء کو صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس حمود الرحمن کی سرکردگی میں ایک کمیشن مقرر کیا۔ اس کمیشن میں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس طفیل علی عبدالرحمن اور پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انوار الحق شامل تھے۔ اس کمیشن کا دائرہ کار بہت محدود رکھا گیا اور کہا گیا کہ کمیشن ان حالات کی تحقیقات کرے گا جن میں ایسٹرن کمان کے کمانڈر نے ہتھیار ڈالے اور اس کے زیر کمک مسلح افواج کے ارکان نے ہتھیار ڈالے اور مغربی پاکستان اور بھارت کی سرحدوں اور ریاست جموں و کشمیر میں سیز فائر لائن پر جنگ بندی کا حکم دیا۔‘‘
کمیشن نے 17 جنوری 1972ء کو اپنے کام کا آغاز کیا اور 12 جولائی 1972ء کو اپنی عبوری رپورٹ صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی خدمت میں پیش کردی۔ 1974ء میں جب بھارت سے جنگی قیدیوں کی واپسی مکمل ہوئی تو کمیشن نے تحقیقات کا ڈول دوبارہ ڈالا اور جنرل نیازی اور دوسرے فوجی قیدیوں کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد 25 نومبر 1974ء کو اپنی تفصیلی رپورٹ اور سفارشات بھٹو کی خدمت میں پیش کردیں جو اب پاکستان کے وزیر اعظم بن چکے تھے۔
بھٹو نے قوم کے مسلسل مطالبے کے باوجود اس رپورٹ کو شائع نہیں کیا۔ ان کے مطابق اس سے فوج کے مورال کے متاثر ہونے کا خدشہ تھا جب کہ فوجی حلقوں کا کہنا ہے کہ فوج نے اس رپورٹ کی اشاعت کی اجازت دے دی تھی۔
حکومت پاکستان ابھی اس رپورٹ کو شاید اور کچھ عرصہ تک خفیہ رکھتی مگر 21 اگست 2000ء کو بھارت کے جریدے انڈیا ٹوڈے نے اپنی ایک خصوصی اشاعت میں اس رپورٹ کے اہم اقتباسات شائع کردیے جو پاکستانی اخبارات میں بھی شائع ہوئے ۔اس کے بعد حکومت پاکستان کو بھی اس رپورٹ کو ڈی کلاسیفائی کرنے پر آمادہ ہونا پڑا۔ 30 دسمبر 2000ء کو حکومت پاکستان نے یہ دستاویز ذرائع ابلاغ کے لیے جاری کردی اور یوں اس رپورٹ تک عوام کی رسائی ہوگئی۔
 

UP