استاد دامن
٭3 دسمبر 1984ء کو پنجابی زبان کے معروف عوامی شاعر استاد دامن لاہور میں وفات پاگئے اور لاہور ہی میں مادھولال حسین کے مزار کے احاطے میں آسودۂ خاک ہوئے۔
استاد دامن کا اصل نام چراغ دین تھا وہ یکم جنوری 1910ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ استاد دامن کے والد خیاطی کی پیشے سے وابستہ تھے چنانچہ انہوں نے بھی یہی پیشہ اختیار کیا اور ایک جرمن فرم جان ولیم ٹیلرز سے خیاطی کا باقاعدہ ڈپلوما حاصل کیا۔
استاد دامن ساتھ ہی ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔ انہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی مگر والد کے انتقال کے باعث سلسلۂ تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور خیاطی کے پیشے سے باقاعدہ طور پر منسلک ہوگئے۔
استاد دامن نے ابتدا ہی طبع موزوں پائی تھی۔ وہ استاد محمد رمضان ہمدم کے شاگرد ہوئے۔ اس شاگردی نے ان کی شاعری کو مزید جلا بخشی۔
ایک موقع پر لاہور کے مشہور سیاستدان میاں افتخار الدین نے استاد دامن کی شاعری سنی اور انہیں لاہور کے ایک سیاسی جلسے میں جس کی صدارت جواہر لال نہرو کررہے تھے نظم سنانے کی دعوت دے ڈالی۔ استاد دامن نے اس جلسہ میں نظم کیا سنائی ہر طرف ان کی شاعری کر چرچا ہونے لگا۔ جواہر لال نہرو نے جلسہ میں ہی انہیں سو روپے بطور انعام عطا کئے جس سے استاد دامن کی بڑی حوصلہ افزائی ہوئی۔
1947ء کے فسادات میں استاد دامن کی بیوی اور ان کا بچہ ان سے بچھڑ گیا۔ کچھ دنوں بعد وہ ملے، مگر زیادہ دن زندہ نہ رہ سکے اور استاد دامن کو ہمیشہ کے لئے تنہا چھوڑ گئے۔ اس واقعہ نے استاد دامن کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا اور پھر وہ ساری عمر تنہا زندگی گزارتے رہے۔
انہوں نے ٹکسالی دروازے کی اس مسجد کے ایک حجرے کو اپنا مسکن بنالیا جہاں اکبر اعظم کے عہد میں معروف صوفی شاعر شاہ حسین رہا کرتے تھے۔ اس حجرے میں استاد کی شاعری کا سلسلہ جاری رہا اور جلد ہی ان کا شمار پاکستان کے معروف شعرا میں ہونے لگا۔
استاد دامن کا مجموعہ کلام ان کی وفات کے بعد دامن دے موتی کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔