ثاقب لکھنوی
٭24 نومبر 1949ء اردو کے معروف شاعر ثاقب لکھنوی کی تاریخ وفات ہے۔
ثاقب لکھنوی کا اصل نام مرزا ذاکر حسین قزلباش تھا اور وہ 2 جنوری 1869ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے تھے۔
بچپن ہی سے انہیں شعر و شاعری کا شوق تھا جو عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا یہاں تک کہ ہر وقت فکر سخن میں غلطیاں رہنے لگے۔ اپنے اس شوق کی وجہ سے زندگی کے راستے میں اکثر ٹھوکریں کھائیں اور تکالیف اٹھائیں۔ حصولِ معاش کے لیے پہلے کچھ تجارت کا سلسلہ شروع کیا مگر اس میں گھر کی ساری جمع پونجی گنوادی۔ پھر 1906ء میں سفارت خانہ ایران میں ملازم ہوگئے۔ 1908ء میں مہاراجہ محمود آباد سے تعلق ہوگیا اور میر منشی کا عہدہ ملا تقسیم ہند کے بعد جب ریاست ختم ہوئی تو ثاقب صاحب بھی گوشہ نشین ہوگئے اور یاد الٰہی میں دن گزار کر 24 نومبر 1949ء کو انتقال کیا۔ شاعری کا ایک دیوان ’’ دیوان ثاقب‘‘ یادگار چھوڑا۔
ثاقب لکھنوی کے بعض اشعار اردو شاعری میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مثلاً
بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
……٭٭٭……
نشیمن نہ جلتا، نشانی تو رہتی
ہمارا تھا کیا ٹھیک، رہتے نہ رہتے
……٭٭٭……
باغ باں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا، وہی پتے ہوا دینے لگے
……٭٭٭……
مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقت دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلا دینے لگے
……٭٭٭……
کہنے کو مشت پر کی اسیری تو تھی، مگر
خاموش ہوگیا ہے چمن بولتا ہوا
……٭٭٭……
دل کے قصے کہاں نہیں ہوتے
ہاں، وہ سب سے بیاں نہیں ہوتے