عبدالرحمن چغتائی
٭17 جنوری 1975ء کو پاکستان کے عظیم مصور‘ جناب عبدالرحمن چغتائی لاہور میں وفات پا گئے۔
جناب عبدالرحمن چغتائی 21 ستمبر 1897ء کو لاہور ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق عہد شاہ جہانی کے مشہور معمار احمد معمار کے خاندان سے تھے جنہوں نے تاج محل آگرہ‘ جامع مسجد دہلی اور لال قلعہ دہلی کے نقشے تیار کیے تھے۔
1914ء میں انہوں نے میو اسکول آف آرٹس لاہور سے ڈرائنگ کا امتحان امتیازی انداز میں پاس کیا اس دوران انہوں نے استاد میراں بخش سے خاصا استفادہ کیا پھر میو اسکول ہی میں تدریس کے پیشے سے منسلک ہوگئے۔
1919ء میں لاہور میں ہندوستانی مصوری کی ایک نمائش نے ان کی طبیعت پر مہمیز کا کام کیا اور اس کے بعد انہوں نے اپنے اسکول کے پرنسپل کے مشورے پر اپنی تصاویر کلکتہ کے رسالے ماڈرن ریویو میں اشاعت کے لیے بھیجیں۔ یہ تصاویر شائع ہوئیں تو ہر طرف چغتائی کے فن کی دھوم مچ گئی۔ اسی زمانے میں انہوں نے مصوری میں اپنے جداگانہ اسلوب کی بنیاد ڈالی جو بعد ازاں چغتائی آرٹ کے نام سے مشہور ہوئی۔
1928ء میں انہوں نے مرقع چغتائی شائع کیا جس میں غالب کے کلام کی مصورانہ تشریح کی گئی تھی۔ یہ اردو میں اپنے طرز کی پہلی کتاب تھی جس کی شاندار پذیرائی ہوئی۔ 1935ء میں غالب کے کلام پر مبنی ان کی دوسری کتاب نقش چغتائی شائع ہوئی۔ یہ کتاب بھی بے حد مقبول ہوئی۔اس کے بعد ہندوستان اور ہندوستان سے باہر چغتائی کے فن پاروں کی متعدد نمائشیں منعقد ہوئیں جن کی فن کے قدر دانوں نے دل کھول کر پزیرائی کی ان کے فن پاروں کے کئی مزید مجموعے بھی شائع ہوئے جن میں چغتائی پینٹنگز اور عملِ چغتائی کے نام بالخصوص قابل ذکر ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد عبدالرحمن چغتائی نے نہ صرف پاکستان کے ابتدائی چار ڈاک ٹکٹوں میں سے ایک ڈاک ٹکٹ ڈیزائن کیا بلکہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کے مونوگرام بھی تیار کیے جو آج بھی ان کے فن کی زندہ یادگار ہیں۔
عبدالرحمن چغتائی ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ ان کے افسانوں کے دو مجموعے لگان اور کاجل شائع ہوچکے ہیں۔