Death of Saba Akbar Abadi
صبا اکبر آبادی کی وفات

صبا اکبر آبادی

٭29 اکتوبر 1991ء کو اردو کے نامور شاعر، ادیب اور مترجم صبا اکبر آبادی اسلام آباد میں وفات پاگئے۔
صبا اکبر آبادی کا اصل نام خواجہ محمد امیر تھا اور وہ 14 اگست 1908ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے تھے۔
صبا اکبر آبادی کی شاعری کا آغاز 1920ء سے ہوا۔ شاعری میں ان کے استاد خادم علی خاں اخضر اکبر آبادی تھے۔ 1927ء میں وہ حضرت شاہ محمد محسن ابوالعلائی رعنا پوری کے حلقہ ادارت میں داخل ہوئے اور اسی وسیلے سے انہیں تصوف کی دنیا سے رابطہ حاصل ہوا۔ 1928ء میں انہوں نے ایک ادبی ماہنامہ ’’آزاد‘‘ نکالا۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے حضرت رعنا اکبر آبادی کے رسالے ’’مشورہ‘‘ کی ادارت بھی سنبھالی۔
قیام پاکستان کے بعد انہوں نے حیدرآباد اور پھر کراچی میں سکونت اختیار کی اور بہت جلد یہاں کی ادبی فضا کا ایک اہم حصہ بن گئے۔ انہوں نے مختلف النوع ملازمتیں بھی کیں اور تقریباً ایک سال محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیویٹ سیکریٹری بھی رہے۔
صبا اکبر آبادی کے شعری مجموعوں میں اوراق گل، سخن ناشنیدہ، ذکر و فکر، چراغ بہار، خونناب، حرز جاں، ثبات اور دست دعا کے نام شامل ہیں اس کے علاوہ ان کے مرثیوں کے تین مجموعے سربکف، شہادت اور قرطاس الم کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ انہوں نے عمر خیام، غالب، حافظ اور امیر خسرو کے منتخب فارسی کلام کا منظوم اردو ترجمہ کیا جن میں سے عمر خیام اور غالب کے تراجم اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔ ان کی ملی شاعری کا مجموعہ زمزمۂ پاکستان قیام پاکستان سے پہلے شائع ہوا تھا۔ انہوں نے ایک ناول بھی تحریر کیا تھا جو ’’زندہ لاش‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا تھا۔صبا اکبر آبادی کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو:

یہ ہمیں ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں
کام دنیا کے بدستور کیے جاتے ہیں

UP