عظیم احمد طارق
٭یکم مئی 1993ء کو عام تعطیل کا دن تھا مگر صبح ہی صبح یہ خبر کراچی کے ایک ایک گھر تک پہنچ چکی تھی کہ مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین عظیم احمد طارق قتل کردیئے گئے ہیں۔
عظیم احمد طارق کا شمار مہاجر قومی موومنٹ کے معتدل مزاج رہنمائوں میں ہوتا تھا۔ جون 1992ء میں جب مہاجر قومی موومنٹ کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہوا تھا تو تنظیم کے دیگر رہنمائوں کی طرح عظیم احمد طارق بھی زیر زمین چلے گئے تھے۔ وہ 29 نومبر 1992ء کو منظر عام پر آئے، اس موقع پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ صرف اور صرف مہاجر عوام کے مستقبل، کراچی کو خون خرابے سے بچانے اور ملک کی سلامتی کی خاطر منظرعام پر آگیا ہوں۔ میری کوشش ہے کہ گولی اور گالی کی سیاست کو خیرباد کہہ کر کسی طریقے سے پارٹی کو بچالوں، مجھے ہر طرف خون نظر آرہا ہے۔
عظیم احمد طارق کے منظرعام پر آنے کے بعد آفاق احمد نے انہیں ایم کیو ایم حقیقی کی قیادت سنبھالنے کی پیشکش کی۔ مگر عظیم احمد طارق نے ان کی یہ پیشکش منظور نہیں کی۔ دوسری جانب عظیم احمد طارق نے الطاف گروپ سے منسوب کئے گئے عقوبت خانوں کی بھی مذمت کی اور ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ اس دوران انہوں نے گورنر سندھ، صدر پاکستان اور سندھ کے کورکمانڈر سے بھی ملاقاتیں کیں۔ یوں آہستہ آہستہ وہ اپنے علیحدہ گروپ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگئے اور ایم کیو ایم تین دھڑوں میں بٹ گئی۔
22 اپریل 1993ء کو عظیم احمد طارق ایک مقدمے کے سلسلہ میں عدالت میں حاضر ہوئے، جہاں ان سے ایم کیو ایم کے ناراض کارکنوں نے خاصی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا مگر عظیم احمد طارق نے انہیں معاف کرنے کا اعلان کردیا۔
یکم مئی 1993ء کی رات عظیم احمد طارق دستگیر سوسائٹی کراچی میں اپنی سسرال میں سو رہے تھی کہ نامعلوم افراد ان کے گھر میں داخل ہوئے۔ انہوں نے عظیم احمد طارق پر کلاشنکوف کا برسٹ مار کر انہیں قتل کردیا۔ وہ فوراً ہی جاں بحق ہوگئے۔
11 جولائی 1993ء کو کراچی پولیس نے بتایا کہ عظیم احمد طارق کے قاتلوں کو گرفتار کرلیا گیا جن کے نام انعام الحق اور عامر ہیں۔ ان سے وہ ہتھیار بھی برآمد کرلئے گئے ہیںجن سے انہوں نے عظیم احمد طارق کو قتل کیا تھا۔