Intezar Hussain
صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی۔ انتظار حسین

انتظار حسین

اردو کے ایک بڑے افسانہ نگار جناب انتظار حسین 7 دسمبر 1923ء کو میرٹھ ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ کالج سے بی اے کیا اورقیام پاکستان کے بعد لاہور میں قیام پذیر ہوئے جہاں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کرنے کے بعدوہ صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔
انتظار حسین کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’گلی کوچے ‘‘ 1953ء میں شائع ہوا۔ روزنامہ مشرق میں طویل عرصے تک چھپنے والے کالم ’’لاہور نامہ‘‘ کو بہت شہرت ملی۔ اس کے علاوہ ریڈیو میں بھی کالم نگاری کرتے رہے۔ افسانہ نگاری اور ناول نگاری میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔
انتظار حسین اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اسلوب ، بدلتے لہجوں اور کرافٹنگ کے باعث آج بھی پیش منظر کے افسانہ نگاروں کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ ان کی اہمیت یوں بھی ہے کہ انہوں نے داستانوی فضا، اس کی کردار نگاری اور اسلوب کا اپنے عصری تقاضوں کے تحت برتاہے۔ ان کی تحریروں کی فضا ماضی کے داستانوں کی بازگشت ہے۔ انتظار حسین نے اساطیری رجحان کو بھی اپنی تحریروں کا حصہ بنایا۔ان کے یہاں نوسٹیلجیا، کلاسیک سے محبت ،ماضی پرستی ، ماضی پر نوحہ خوانی اور روایت میں پناہ کی تلاش بہت نمایاں ہے۔ پرانی اقدارکے بکھرنے اور نئی اقدار کے سطحی اور جذباتی ہونے کا دکھ اور اظہار، بہت جگہ پر انداز اور لہجہ بہت شدیدہوجاتا ہے۔ وہ علامتی اور استعاراتی اسلوب کے نت نئے ڈھنگ سے استعمال کرنے والے افسانہ نگار ہیں لیکن اپنی تمام تر ماضی پرستی اور مستقبل سے فرار اور انکار کے باوجود ان کی تحریروں میں ایک عجیب طرح کا سوز اورحسن ہے۔
انتظار حسین کی تصانیف میں آخری آدمی، شہر افسوس، آگے سمندر ہے، بستی، چاند گہن، گلی کوچے، کچھوے، خالی پنجرہ ،خیمے سے دور، دن اور داستان، علامتوں کا زوال، بوند بوند،شہرزاد کے نام، زمیں اور فلک اور، چراغوں کا دھواں،دلی تھا جس کا نام،جستجو کیا ہے ، قطرے میں دریا،جنم کہانیاں، قصے کہانیاں،شکستہ ستون پر دھوپ، سعید کی پراسرار زندگی کے نام سر فہرست ہیں۔ وہ پاکستان کے پہلے ادیب ہیں جن کا نام مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا۔ جناب انتظار حسین کو حکومت پاکستان نے 14 اگست 1986ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور بعد ازاں ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔ انھیں اکادمی ادبیات پاکستان نے بھی پاکستان کے سب سے بڑ ے ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ سے نوازا ہے۔
 

UP