میاں نواز شریف
٭1993ء کے اوائل میں جب جنرل آصف نواز کا انتقال ہوا تھا اسی وقت سے صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم محمد نواز شریف میں اختلافات کا آغاز ہوگیا تھا۔ یہ اختلافات جنرل آصف نواز مرحوم کے جانشین کی تقرری کے مسئلے سے شروع ہوئے تھے۔
کم و بیش اسی زمانے میں وزیراعظم نواز شریف نے آٹھویں ترمیم کے خاتمے کے لئے کوششوں کا آغاز کیا۔ انہوں نے خیرسگالی کے طور پر محترمہ بے نظیر بھٹو کو قومی اسمبلی کی امور خارجہ کی خاتمہ کمیٹی کا چیئرپرسن مقرر کیا۔18 مارچ 1993ء کو پاکستان کے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ کے سربراہ محمد خان جونیجو امریکا میں انتقال کرگئے۔ ان کے انتقال کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے خود کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کروالیا۔ ان کے اس اقدام نے مسلم لیگ کے بہت سے رہنمائوں اور بزرگوں کو ان سے دور کردیا۔
اپریل 1993ء کے آغاز سے حامد ناصر چٹھہ کی سرکردگی میں مرکزی وزرا نے کابینہ سے مستعفی ہونے کے سلسلہ کا آغاز کیا اور پورے ملک میں یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ صدر کسی بھی لمحے اسمبلیاں توڑنے والے ہیں۔
17 اپریل 1993ء کو وزیراعظم نواز شریف نے ریڈیو اور ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کیا جس میں انہوں نے بڑے جذباتی انداز سے قوم کو اپنی خدمات گنوائیں اور کہاکہ ایوان صدر سازشوں کی آماجگاہ بن چکا ہے اور یہ کہ وہ کسی کمزوری، کوتاہی یا پسپائی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ وہ نہ استعفیٰ دیں گے، نہ اسمبلی توڑیں گے اور نہ ڈکٹیشن لیں گے۔
وزیراعظم نواز شریف کی یہ تقریر صدر غلام اسحاق کو، جو اسمبلی توڑنے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھے، ایک مضبوط سہارا فراہم کر گئی اور اگلے ہی دن 18 اپریل 1993ء کو انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو توڑنے اور وزیراعظم نواز شریف اور ان کی کابینہ کو برطرف کرنے کا اعلان کردیا۔
اسی شام میر بلخ شیر مزاری کی قیادت میں ایک نگراں کابینہ نے حلف بھی اٹھالیا۔ یہ نگراں کابینہ جناب حامد ناصر چٹھہ اور جناب فاروق احمد لغاری پر مشتمل تھی۔ بعد میں اس کابینہ میں توسیع بھی کی گئی۔