Incident of Sohrab Goth
سانحۂ سہراب گوٹھ

سہراب گوٹھ


٭8 اگست 1986ء کو کراچی میں ایک کامیاب جلسہ کرنے کے بعد مہاجر قومی موومنٹ نے اعلان کیا کہ اس کا دوسرا بڑا جلسہ 31 اکتوبر 1986ء کو حیدرآباد میں منعقد کیا جائے گا۔
31 اکتوبر کی صبح ایم کیو ایم کے کارکنان مختلف گاڑیوں میں سوار ہوکر حیدرآباد کی جانب روانہ ہونے لگے۔ اس جلوس کو سہراب گوٹھ کے آگے سے گزرنا تھا، جو پختون آبادی کا اکثریتی علاقہ ہے۔ چونکہ شہر میں پچھلے سال ڈیڑھ سال میں مہاجروں اور پختونوں میں کئی جھڑپیں ہوچکی تھیں اس لئے حکومت نے پہلے ہی ایم کیو ایم اور سہراب گوٹھ کے عمائدین کے درمیان ایک معاہدہ کروادیا تھا۔
مگر اس معاہدے کے باوجود جب یہ پرجوش جلوس سہراب گوٹھ کے آگے سے گزرا تو جلوس کے شرکا نے پرجوش نعرے لگانے شروع کردیئے۔ جب تقریباً پچاس بسیں گزر چکیں تو اچانک جلوس پر پتھرائو شروع ہوگیا۔ یہ پتھرائو تھوڑی دیر میں دو طرفہ فائرنگ میں تبدیل ہوگیا۔ فائرنگ کا یہ تبادلہ کئی گھنٹے جاری رہا اور اس فائرنگ کے نتیجے میں آٹھ افراد ہلاک اور پندرہ شدید زخمی ہوگئے۔ یہ اطلاع جنگل کی آگ کی طرح کراچی اور حیدرآباد میں پھیل گئی اور یہ دونوں شہر باہمی فسادات اور بدامنی کی لپیٹ میں آگئے۔ متعدد دکانیں، مکانات، منی بسیں، رکشے اور لکڑی کی ٹالیں جلادی گئیں، سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے ٹریفک معطل کردیا گیا، شاہراہوں پر جگہ جگہ آگ کے الائو روشن کردیئے گئے۔
اسی دن دوسرا بڑا تصادم حیدرآباد شہر میں بھی ہوگیا۔ وہاں ایک جلوس مارکیٹ کے علاقے سے گزرتا ہوا جلسہ گاہ کی طرف جارہا تھا تو اس پر نامعلوم افراد نے گولی چلادی جس کے نتیجے میں جلوس کے تین شرکا زخمی ہوگئے۔ اس پر مشتعل افراد نے ایک کار، ایک درجن سے زیادہ رکشے اور دو ہوٹلوں کو نذر آتش کردیا۔آگ اور خون کے اس پس منظر میں اسی دن مہاجر قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے پکا قلعہ گرائونڈ حیدرآباد میں بہت بڑے جلسے سے خطاب کیا۔ جلسے کے بعد انہوں نے ایک پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا اور کہاکہ سہراب گوٹھ کے معززین نے جلوس کے قافلوں پر حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی لیکن انہوں نے اپنا وعدہ ایفا نہیں کیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ قاتلوں کو گرفتار کرکے پھانسی دی جائے اور جاں بحق ہونے والوں کے ورثا کو معاوضہ دیا جائے۔
کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم کے دو بڑے جلسوں، اسلحہ کی نمائش اور قوت کے مظاہرے نے سندھ کی سیاست کو ایک نیا رخ دے دیا اور مہاجر بستیوں میں قیادت سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں سے نکل کر ایم کیو ایم کی جانب منتقل ہونے لگی۔

UP