محترمہ بے نظیر بھٹو
٭نومبر 1988ء کے عام انتخابات میں کوئی بھی سیاسی جماعت سادہ اکثریت حاصل کرنے میںکامیاب نہیں ہوسکی تھی۔ انتخابات کے فوراً بعد جوڑ توڑ کے سلسلے کا آغاز ہوا اور دونوں بڑی جماعتیں یہ دعوے کرنے لگیں کہ منتخب نمائندوں کی اکثریت ان کے ساتھ ہے لہٰذا اقتدار انہیں منتقل کیا جائے۔
اس دوران قائم مقام صدر جناب غلام اسحاق خان نے قومی اسمبلی کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی جماعتوں کے سربراہوں سے ملاقات کے سلسلہ کا آغاز کیا۔ پیپلزپارٹی کا مطالبہ یہ تھا کہ فوری طور پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزیراعظم کے عہدے کے لئے نامزدگی کا اعلان کیا جائے۔ دوسری جانب اسلامی جمہوری اتحاد کا کہنا تھا کہ پہلے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کے لئے پولنگ کروالی جائے اس انتخاب میں جس سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل ہو اسی کو وزارت عظمیٰ سونپ دی جائے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کا مطالبہ بظاہر جمہوری نظر آتا تھا مگر اس کے ساتھ ہارس ٹریڈنگ کا جو طوفان آتا۔ اس سے نمٹنا کسی کے بس میں نہ تھا۔
چنانچہ صدر غلام اسحاق خان نے یکم دسمبر 1988ء کو اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے، پاکستان پیپلزپارٹی کی شریک چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کو ملک کا وزیراعظم نامزد کردیا اور انہیں حکومت سازی کی دعوت دی۔
2 دسمبر 1988ء کو جمعہ کی نماز کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایوان صدر میں ملک کی گیارہویں وزیراعظم کے عہدے کا حلق اٹھالیا۔ وہ عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔ صدر نے ان سے اردو میں حلف لیا۔ اس تقریب میں بیگم نصرت بھٹو، آصف زرداری، صنم بھٹو، ناصر حسین، ٹکا خان، یحییٰ بختیار، ولی خان، نوابزادہ نصراللہ خان، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس محمد حلیم، مسلح افواج کے سربراہوں، مختلف ممالک کے سفارت کاروں اور دیگر سرکردہ شخصیات نے شرکت کی۔
اسی شام محترمہ بے نظیر بھٹو نے قوم سے خطاب کیا جس میں انہوں نے مارشل لاء دور کے غیر منصفانہ اقدامات اور زیادتیوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو جو ایک طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد برسراقتدار آئی تھیں اس موقع پر بھرپور فائدہ اٹھاتیں مگر ان کا دور حکومت شروع ہوتے ہی ملک میں رشوت ستانی اور لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گیا۔ وہ نہ صرف حزب اختلاف بلکہ ایم کیو ایم کے ساتھ بھی ٹھیک طرح سے نہ چل سکیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ فقط 20 ماہ ہی حکومت کرسکیں اور 6 اگست 1990ء کو غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت کا بوریا بستر لپیٹ دیا۔