امرائو جان ادا
٭29 دسمبر 1972ء کو پاکستان کی کلاسک فلم امرائو جان ادا نمائش کے لیے پیش ہوئی اردو کے نامور ناول نگار مرزا ہادی رسوا کے ناول امرائو جان ادا کی کہانی پر اس سے قبل نخشب جارچوی‘ زندگی یا طوفان‘ ایس ایم یوسف مہندی اور کمال امروہی پاکیزہ کے نام سے فلمیں بنا چکے تھے مگر ہدایت کار حسن طارق نے اپنی فلم میں بڑی حد تک ناول کی اصل کہانی کو برقرار رکھا اور یہی اس کی خوبی تھی۔ حسن طارق کی اس فلم کی کامیابی کے بعد اسی ناول پر بھارت میں ہدایت کار مظفر علی اور ہدایت کار جے پی دتہ نے دو اور فلمیں بنائیں جن میں سے پہلی فلم بہت کامیاب ہوئی جب کہ دوسری فلم بری طرح فلاپ ہوگئی۔
ہدایت کار حسن طارق کی امرائو جان ادا کی فلم ساز ان کی صاحبزادی رابعہ حسن تھیں جب کہ مصنف اور نغمہ نگار سیف الدین سیف اور موسیقار نثار بزمی تھے۔ فلم کی کاسٹ میں رانی‘ شاہد‘ طالش‘ رنگیلا‘ طلعت صدیقی‘ ناہید صدیقی‘ لہری‘ نیر سلطانہ‘ آسیہ‘ زمرد اور ناصرہ شامل تھیں۔ اس فلم کے نغمات بھی بے حد مقبول ہوئے جن میں نور جہاں کا نغمہ جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں اور رونا لیلیٰ کے گائے ہوئے نغمات جھومیں کبھی ناچیں کبھی گائیں خوشی سے‘ آپ فرمائیں کیا خریدیں گے‘ کاٹے نہ کٹے رے رتیاں اور نجانے کس لئے ہم پر قیامت ڈھائی جاتی ہے سرفہرست تھے۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ فلم کے سپرہٹ ہونے اور پاکستان کی شاہکار فلموں میں شمار ہونے کے باوجود یہ فلم کوئی نگار ایوارڈ حاصل نہیں کرسکی تھی۔