بابری مسجد
٭6 دسمبر 1992ء کو اترپردیش (بھارت) کے شہر اجودھیا میں لاکھوں انتہا پسند ہندوئوں نے مغل دور کی یادگار بابری مسجد پر یلغار کردی۔ چند گھنٹوں کے اندر انہوں نے مسجد کو ملبے کا ڈھیر بنادیا اور اس ملبے پر راتوں رات ایک مندر تعمیر کرلیا۔
بابری مسجد 1527ء میں پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے تعمیرکروائی تھی۔ کئی صدیوں تک یہ مسجد ، مسلمانوں کی عبادت گاہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی اور اس مسجد کے بارے میں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا۔ مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد 1885ء میں ہندو انتہا پسندوں نے دعویٰ کیا کہ یہ مسجد جس مقام پر تعمیر کی گئی ہے وہاں رام چندر جی نے جنم لیا تھا لہٰذا اس مسجد کو شہید کرکے یہاں مندر تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے۔ یہ دعویٰ اتنا بے بنیاد تھا کہ جج نے ، جو خود بھی ہندو تھا، محض پانچ دن کی سماعت کے بعد اس مقدمے کو خارج کردیا۔
ہندوستان کی آزادی کے بعد یہ مسئلہ ایک مرتبہ پھر جڑ پکڑ گیا اورہندوئوں نے اس مسجد کے مقام پر ایک مرتبہ پھر متنازع بنانے کی کوشش کی۔ 22 دسمبر 1949ء کو کسی نے اس مسجد میں رام اور سیتا کے مجسمے رکھ دیئے، اس واقعے کے بعد ہندوئوں اور مسلمانوں میں کشیدگی پیدا ہوئی اور حکومت نے اس مسجد کو مقفل کردیا۔اس کے بعد یہ معاملہ کئی دہائیوں تک جوں کا توں رہا تاہم جب 1990ء میں بھارت میں بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو 6 دسمبر 1992ء کو یو پی کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ کی ایماپرہندو انتہا پسندوں نے اس مسجد پر حملہ کرکے اسے شہید کردیا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوستان بھر میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے جس میں اندازاً 2 ہزار مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔
اس سانحے پر پوری پاکستانی قوم بھی سراپا احتجاج بن گئی۔ حکومت پاکستان نے 8 دسمبر1992ء کو ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کردیا، تمام دفاتر اور کاروباری مراکز بن رہے اور ملک بھر میں احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ 10 دسمبر کو وزیراعظم نواز شریف نے اس مسئلے پر مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کے لئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی تمام سیاسی جماعتوں کا ایک اجلاس طلب کرلیا۔ اس اجلاس میں اپوزیشن کی نمائندہ سیاسی جماعتوں نے تو شرکت نہیں کی تاہم کچھ چھوٹی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے شرکت کی۔ اجلاس کے اختتام پر اعلان اسلام آباد جاری کیا گیا جس میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ بابری مسجد کو فوری طور پر ازسرنو تعمیر کیا جائے، بھارت میں تمام مساجد کو تحفظ فراہم کیا جائے اور مسلمانوں کے جان و مال اور املاک کو جو نقصان پہنچا ہے بھارتی حکومت اس کا معاوضہ ادا کرے۔
ادھر ہندوستان میں یہ معاملہ ایک مرتبہ پھر عدالت تک جا پہنچا۔ 30 ستمبر 2010ء کو ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ اس مسجد کے تین حصے کرکے اسے مسلمانوں اور ہندوئوں میں تقسیم کردیا جائے تاہم مسلمانوں نے یہ فیصلہ قبول کرنے سے انکار کردیا اوراب اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔