Death of Ustad Allah Bakhsh
استاد اللہ بخش کی وفات

استاد اللہ بخش

٭استاد اللہ بخش پاکستان کی مصوری کی تاریخ کا ایک معتبر اور محترم نام ہے۔ ان کا تعلق مصوری کے اس اسلوب سے تھا جس کی جڑیں ہماری اپنی مٹی سے پھوٹتی ہیں۔
استاد اللہ بخش 1895ء میں وزیر آباد کے مقام پر پیدا ہوئے۔ پانچ برس کی عمر میں وہ ماسٹر عبداللہ آرٹسٹ کے ہاں بورڈ نویسی کا کام سیکھنے کے لئے بھیج دیئے گئے۔ کچھ دنوں بعد وہ کلکتہ چلے گئے جہاں ان کی ملاقات آغا حشر کاشمیری سے ہوئی اور انہیں پردوں پر سینریاں بنانے کا کام مل گیا۔
 1919ء میں استاداللہ بخش تجربے اور مہارت سے آراستہ ہوکر واپس لاہور پہنچ گئے۔ اب ان کے ہاتھ میں صفائی پیدا ہوچکی تھی۔ یہاں انہوں نے منشی محبوب عالم کے پیسہ اخبار میں کمرشل آرٹسٹ کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔
اس کے بعد ان کا رجحان پنجاب کی دیہاتی زندگی کی جانب ہوا۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ پنجاب کی ثقافت کو اپنی مصوری کا موضوع بنایا بلکہ پنجاب کی رومانی داستانوں کے لافانی کرداروں ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال اور مرزا صاحباں کو مصورانہ تخیل سے چار چاند لگا دیئے۔
استاد اللہ بخش ایک طویل عرصہ تک مہاراجہ پٹیالہ کے دربار سے وابستہ رہے اور اس کے محل کے مختلف گوشوں کو اپنے فن پاروں سے مزین کرتے رہے۔ مہاراجہ کے انتقال کے بعد وہ لاہور واپس آگئے۔ پھر تمام عمر یہیں اپنے علم کا فیض پھیلاتے رہے۔
18 اکتوبر 1978ء کو پاکستان کے اس عظیم مصور کا انتقال ہوگیا۔ انہیں حکومت پاکستان نے تمغہ حسن کارکردگی اور تمغہ امتیاز سے نوازاتھا۔ 24 دسمبر 1991ء کو حکومت پاکستان نے ان کے پورٹریٹ اور پینٹنگ سے مزین ایک یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔

UP