کے ٹو کی چوٹی
٭31 جولائی 1954ء کو اٹلی کے دو کوہ پیمائوں کیمپگ نونی اور لیس ڈیلی نے دنیا کی دوسری اور پاکستان کی سب سے بلند چوٹی کے ٹو کو سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔
کے ٹو کو مقامی زبان میں چھگوری یعنی پہاڑوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ 1856 میں کیپٹن منٹگمری نے اسے کے ٹو کا نام دیا۔ 1861ء میں سروے ڈپارٹمنٹ کے کیپٹن گڈون آسٹن نے اس چوٹی کی بلندی معلوم کی جس کی وجہ سے یہ چوٹی اس کے نام سے موسوم ہوکر مائونٹ گڈون آسٹن کہلانے لگی تاہم اس کا مشہور اور مقبول نام کے ٹو ہی رہا۔بیسویں صدی کے اوائل میں کے ٹو کی چوٹی سر کرنے کے لیے مہمات بھیجے جانے کا آغاز ہوا تاہم کئی قیمتی جانیں ضائع ہونے کے بعد بھی کوئی مہم جو اسے سر کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ 1954ء میں پروفیسر دے سیو کی قیادت میں 15کوہ پیمائوں کی ایک ٹیم نے کے ٹو کو سر کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اس ٹیم میں پاکستانی کرنل عطاء اللہ‘ میجر بشیر‘ کیپٹن بٹ اور انجینئر منیر بھی شامل تھے۔ 31 جولائی 1954ء کو اس ٹیم کے دو ارکان کیمپگ نونی اور لیس ڈیلی پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ گئے اور یوں انسانی عزم اور ہمت نے دنیا کی اس مشکل ترین چوٹی کو بھی سر کرلیا۔ اس واقعے کے 50 سال بعد 14 اگست 2004ء کو حکومت پاکستان نے لیس ڈیلی کو ستارۂ امتیاز کا اعزاز عطا کیا تھا۔