اسٹیٹ بنک آف پاکستان
٭پاکستان کو اپنے قیام کے فوراً بعد جن بے شمار انتظامی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ان میں سے ایک بنکاری کا مسئلہ بھی تھا۔ ابتدا میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ چونکہ نیا ملک فوری طورپر اپنے قومی بنک کا قیام عمل میں نہیں لاسکتا اس لیے ایک سال چار ماہ تک (30 دسمبر 1948ء تک) ریزرو بنک آف انڈیا پاکستان کے لیے بھی زرکاری کے انتظامات کرتا رہے گاتاہم اس وقت کے آنے سے بہت پہلے قائداعظم نے پاکستان کے قومی بنک کے قیام کی منصوبہ بندی شروع کردی اور اس بنک کا ابتدائی خاکہ بہت جلد عملی روپ دھارنے لگا۔
10مئی 1948ء کو قائد اعظم نے سربراہ مملکت کے طور پر اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے اجرا کا قانونی حکم جاری کیا۔ جس کے تحت یہ اعلان کیا گیا کہ پاکستان کا قومی بنک اسٹیٹ بنک آف پاکستان یکم جولائی 1948ء سے اپنا کام شروع کردے گا۔ ریزرو بنک آف انڈیا سے جو معاہدہ بنکاری کے ضمن میں 30 دسمبر 1948ء تک کے لیے تھا پاکستان نے پیش قدمی کرکے اسے چند ماہ پہلے ہی ختم کردیا اور یکم جولائی 1948ء کو نئی مملکت کی آزاد معیشت کی داغ بیل ڈال دی گئی۔
29 جون 1948ء کو قائداعظم کوئٹہ سے کراچی پہنچے۔ وہ گزشتہ ایک ماہ سے کوئٹہ اور بعد ازاں زیارت میں موسم گرما گزار رہے تھے۔ اگرچہ ان کے مشیر کہتے تھے کہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے لیے کراچی میں ان کی آمد ضروری نہیں اور ان کے بحری اے ڈی سی کا خیال تھا کہ ’’ان کی تقریر کا مسودہ کراچی بھیج دینا کافی ہوگا۔‘‘لیکن قائد اعظم نے یہ تجویز قبو ل نہیں کی۔ وہ یہ تجویز قبول بھی کیسے کرتے اس لیے کہ پاکستان کی آزادمعیشت کے خواب کی عملی تعبیر وہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ اس اہم موقع پر وہ خود موجود نہ ہوں۔ چنانچہ وہ بنک کے افتتاح سے دو دن پہلے کراچی پہنچ گئے۔ 29 جون 1948ء کو صبح دس بجے قائد اعظم کا طیارہ ماری پور کے ہوائی اڈے پر پہنچا جہاں وزیر اعظم‘ کابینہ کے دوسرے وزراء‘ اعلیٰ افسروں اور سیاسی کارکنوں نے ان کا استقبال کیا۔
یکم جولائی کو قائد اعظم گورنرجنرل ہائوس سے ایک بگھی میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی عمارت تک گئے اس بگھی کو چھ گھوڑے کھینچ رہے تھے اور اس کا محافظ دستہ شوخ سرخ رنگ کی وردیاں پہنے ہوئے تھے۔ قائد اعظم شاہانہ انداز میں بنک کی عمارت تک پہنچے جہاں ان کا پرجوش استقبال کیا گیا۔ تقریب میں مسلم ممالک کے نمائندے‘ دولت مشترکہ کے ارکان‘ امریکہ اور روس کے سفیر‘ متعدد ممالک کے ٹریڈ کمشنرز‘ صوبائی اور مرکزی وزراء اور معزز شہری شامل تھے۔ قائد اعظم نے اس موقع پر ایک تاریخی تقریر کی۔ یہ تقریر تحریری شکل میں تھی جسے قائد اعظم نے حاضرین کے سامنے پڑھا۔ معمول کے برعکس ان کا یہ اقدام تقریب کی اہمیت پر دلالت کرتا تھا اپنی اس تاریخی تقریر میں انہوں نے پاکستانی معیشت کے لیے اسلامی پہلوئوں کو پیش نظر رکھنے اور ایسے معاشرے کے قیام میں مددگار بننے پر زور دیا تھا جو سب کے لیے فائدہ مند ثابت ہو اور ایک مثالی اقتصادی نظام پیش کرے۔ قائد اعظم نے اس موقع پر جو تقریر کی اس کی کئی تاریخی حیثیتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے پاکستان کی مالی خود مختاری کی داغ بیل پڑی‘ دوسری یہ کہ معیشت کے اسلامی پہلوئوں پر حکومت کی پالیسی سامنے آئی اور سب سے بڑی تاریخی حیثیت یہ کہ‘ بدقسمتی سے یہ قائد اعظم کی آخری سرکاری مصروفیت اور ان کی آخری تقریر ثابت ہوئی‘ ایک بے حد قابل ذکر امر یہ ہے کہ اگر قائد اعظم کی دلچسپی اور پاکستانی ماہرین کی فرض شناسی کے تحت اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے قیام کی راہ وقت سے پہلے ہموارنہ ہوجاتی تو پاکستان کا قومی بنک اس اعزاز سے محروم رہ جاتا جو اسے پاکستان کے بانی اور اس کے پہلے سربراہ کے ہاتھوں افتتاح کی شکل میں حاصل ہوا۔