







جنرل مرزا محمد اسلم بیگ
(سترہ اگست ۱۹۸۸ء تا سولہ اگست ۱۹۹۱ء)
پاک فوج کے سابقہ کمانڈر انچیف ۔2 اگست 1931 کو اعظم گڑھ یوپی کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ جوانی میں ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور 1950ء میں پاکستان ملٹری اکیڈیمی کاکول کے چھٹے کورس میں شمولیت اختیار کی ۔ 1952ء میں بلوچ رجمنٹ میں بطور انفنٹری افسر کمشن ملا۔ سپیشل سروسز گروپ میں شامل رہ کر فوج خدمات انجام دیں۔ 1962ء میں سٹاف کالج کوئٹہ سے گریجویشن کی۔
جنرل اسلم بیگ پاکستانی فوج کے پہلے سربراہ تھے جن کا تعلق نہ صرف کاکول جنریشن سے تھا بلکہ وہ ایس ایس جی کمانڈو بھی تھے۔ انھیں تھنکنگ جنرل بھی کہا جاتا تھا۔نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں دورانِ ملازمت اور بعد ازاں عسکری علوم پڑھاتے رہے۔ ان کے شاگردوں میں پرویز مشرف بھی شامل تھے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب جنرل بیگ 1979 میں جی او سی 14 ڈویژن گوجرانوالہ تھے تو اس بات کے حق میں نہیں تھے کہ بھٹو کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد ہو۔چنانچہ انھیں کچھ عرصے بعد فیلڈ سے بلا کر جی ایچ کیو میں ایجوٹنٹ جنرل کی کرسی پر بٹھا دیا گیا اور پانچ برس بعد پشاور کور کی کمان دی گئی۔
۔ 1986ء میں جی ایچ کیو سے تبادلہ کرکے انہیں آرمی کور پشاور کا کمانڈر مقرر کیا گیا ۔ مارچ 1987ء میں ان کو ترقی دے کر جنرل بنایا گیا اور جنرل خالد محمود عارف کی جگہ وائس چیف آف آرمی سٹاف بنایا گیا۔ جنرل عارف کے ساتھ جنرل رحیم الدین خان بھی ریٹائرمنٹ پر چلے گئے ۔ جن کی جگہ تینوں افواج کا مشترکہ چیف جنرل اختر عبدالرحمن کو بنایا گیا۔ جنرل ضیا الحق صدر مملکت کے علاوہ چیف آف آرمی سٹاف بھی تھے۔
17اگست1988 کو جنرل ضیاء الحق کا طیارہ نہ پھٹتا تو یوپی کے ضلع اعظم گڑھ کے ہاکی پلیئر جنرل اسلم بیگ بھی اپنے پیشرو جنرل سوار خان اور جنرل کے ایم عارف کی طرح وائس چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے ریٹائر ہو چکے ہوتے
چیف آف آرمی سٹاف بننے کے بعد جنرل بیگ نے فوج کے بنیادی عسکری نظریے میں جدید فوجی اور علاقائی صورتِ حال کے تناظر میں ترمیمات پر زور دیا اور ترمیم شدہ ڈاکٹرن کی عملی افادیت کو ضربِ مومن جیسی بڑی جنگی مشقوں کے ذریعے پرکھا گیا۔
ان کے دور میں فوجی افسروں کو بیرون ِ ملک پیشہ ورانہ کورسز پر بھیجنے کی پہلے سے زیادہ حوصلہ افزائی ہوئی ۔
جب جنرل بیگ چیف آف آرمی سٹاف بنے تو امریکی فوجی حلقوں کی رائے یہ تھی کہ آدمی تو قابل ہے لیکن من موجی ہے اور اس کے دماغ کو پڑھنا آسان نہیں، اگلے لمحے جانے کیا سوچ کے کیا کہہ کر کیا کر جائے۔
اگرچہ جنرل ضیاء الحق کے اچانک منظر سے ہٹنے کے بعد قائم مقام صدر غلام اسحاق خان اور جنرل بیگ نے جماعتی بنیادوں پر انتخابی عمل کی بحالی کا اعلان کر کے بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کی کامیابی کا راستہ ہموار کیا۔
تاہم اس خیال سے کہ 12 برس سے فاقہ زدہ پیٹ کو کہیں خالص اور بااختیار جمہوریت سے بدہضمی نہ ہوجائے، دونوں صاحبوں نے انتخابی دودھ کو زود ہضم بنانے کے لیے اس میں اسلامی جمہوری اتحاد کا پانی ملا دیا تاکہ معاملات کی رسی ڈھیلی رہنے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے ہی ہاتھ میں رہے۔
بے نظیر بھٹو نے جنرل بیگ کو انتخابی عمل کی مشروط بحالی اور آمریت سے جمہوریت کے سفر میں رکاوٹ نہ ڈالنے کے عوض تمغۂ جمہوریت سے نوازا لیکن جنرل بیگ نے بے نظیر بھٹو کو، جنرل حمید گل، مہران گیٹ اور نواز شریف فیکٹر سے نواز دیا۔
بےنظیر بھٹو کی پہلی حکومت کی صرف ڈھائی برس میں برطرفی کے بعد اسلامی جمہوری اتحاد کو باری دلائی گئی لیکن آئی جے آئی حکومت اور جنرل بیگ کے درمیان تناؤ اس وقت بڑھ گیا جب من موجی فوجی نے کویت پر عراق کے قبضے کے بعد صدام حسین کی حمایت میں بیان دے ڈالا۔ ان کے بارے میں یہ شبہات بھی پیدا ہوئے کہ وہ ایران کے خفیہ جوہری پروگرام میں مدد دے رہے ہیں۔
جنرل بیگ کے دور میں ٹرائیکا کی اصطلاح عام ہوئی جس میں صدر ، وزیر اعظم اور آرمی چیف شامل تھے، یہ جنرل بیگ کی حکومتی معاملات میں مداخلت کی مثال ہے۔ خلیج کی جنگ کے دوران نواز شریف نے محسوس کیا کہ جنرل بیگ ان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں یہی وجہ تھی کہ جنرل بیگ کی ریٹائرمنٹ سے 2ماہ قبل نئے آرمی چیف کا تقرر کر دیا گیا۔
تاہم جنرل بیگ نے اپنی مدتِ ملازمت پوری کی۔ بعد ازاں ایک سیاسی جماعت عوامی قیادت پارٹی کے رہنما، ایک تھنک ٹینک فرینڈز کے سربراہ اور سرکردہ سیاسی مبصر و کالم نگار بن گئے۔
وہ نیشنل اور انٹرنیشنل سکیورٹی پر دو کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔