لہری
پاکستان کے ممتازمزاحیہ اداکا ر لہری 2 جنوری 1929ء کو کانپور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام سفیر اللہ صدیقی تھا۔ انہوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز پچاس کی دہائی میں بلیک اینڈ وائٹ فلموں سے کیا۔ ان کی پہلی فلم ’انوکھی‘ تھی جو 1956ء میں ریلیز ہوئی جبکہ ان کی آخری فلم ’دھنک‘ 1986میں بنی تھی۔ انہوں نے اپنے فلمی کیریئر میں تقریبا سوا دو سو فلموں میں کام کیا جن میں چند ایک پنجابی فلموں کے علاوہ باقی سب اردو فلمیں تھیں۔
لہری اپنی طرز کے منفرد اداکار تھے۔ ان کے مزاح کی خاص بات ان کے برجستہ جملے ہوتے تھے اور وہ کبھی مزاح کے لیے جسمانی حرکتوں سے کام نہیں لیتے تھے۔وہ ایک ایسے اداکار تھے جنھوں نے نہ صرف فلمی دنیا میں اپنے لیے جگہ بنائی بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی مزاح کا ایک نیا راستہ دکھایا۔
لہری کی مشہور فلموں میں انسان بدلتا ہے، رات کے راہی، فیصلہ، جوکر، کون کسی کا، آگ، توبہ، جیسے جانتے نہیں، دوسری ماں، اِک نگینہ، اِک مسافراِک حسینہ، چھوٹی امی، تم ملے پیار ملا، بہادر، نوکری، بہاریں پھر بھی آئیں گی، افشاں، رم جھم، بالم، جلتے سورج کے نیچے، پھول میرے گلشن کا، انجان، پرنس، ضمیر، آنچ، صائمہ، دل لگی، آگ کا دریا، ہمراز، دیور بھابھی، داغ، نئی لیلیٰ نیا مجنوں، بندھن، تہذیب، دلہن رانی، زبیدہ، زنجیر، نیا انداز، موم کی گڑیا، جلے نہ کیوں پروانہ، گھرہستی، رسوائی، بدل گیا انسان، نورین، اپنا پرایا، دو باغی، سوسائٹی، انہونی، ننھا فرشتہ، ایثار، دامن، آنچل، طلاق، پیغام اور کنیزکے نام سر فہرست ہیں۔
حکومت پاکستان نے 14 اگست 1996ء کو اداکارلہری کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ علاوہ ازیں انہیں مجموعی طور پر گیارہ مرتبہ نگار ایوارڈ دیا گیا جو بجائے خود ایک ریکارڈ ہے۔ نگار ایوارڈ پاکستان میں فلم کا سب سے معتبر ایوارڈ سمجھا جاتا ہے۔
1985ء میں بیرون ملک ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران لہری پر فالج کا حملہ ہوا،جس کے باعث ان کی دونوں ٹانگیں کاٹنی پڑیں۔ پھر قوت بینائی میں کمی آنے لگی، اس طرح وہ آہستہ آہستہ فلمی دنیا سے کنارہ کش ہوتے چلے گئے۔ لیکن تمامتر تکالیف کے باوجود وہ ذہنی طور پر آخری وقت تک ہشاش بشاش رہے اور اپنی روایتی بزلہ سنجی، برجستگی اور حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے رہے۔
لہری نے13 ستمبر 2012ء کو کراچی میں وفات پائی اور یاسین آباد کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔