

میرمرتضیٰ بھٹو کا قتل
٭یہ 20 ستمبر 1996ء کوپاکستان کے ایک سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادے اور اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو، کراچی میں ایک سیاسی میٹنگ میں شرکت کے بعد گھر واپس لوٹ رہے تھے کہ ان کے گھر کے نزدیک پولیس کے مسلح اور مورچہ بند افراد نے انہیں رکنے کا اشارہ کیا، پولیس جناب مرتضیٰ بھٹو کے ان محافظوں کو گرفتار کرنا چاہتی تھی جن پر غیر قانونی اسلحہ رکھنے اور دہشت گردی کے بعض واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات تھے مگر جونہی میر مرتضیٰ بھٹو کا قافلہ روکا گیا۔ ان کی پولیس افسر کے ساتھ تکرار ہوگئی۔ میر مرتضیٰ بھٹو کے محافظوں نے مشتعل ہوکر فائرنگ شروع کردی جس کے جواب میں پولیس نے بھی فائرنگ کی اور اس فائرنگ کے نتیجے میں میر مرتضیٰ بھٹو اور ان کے 6 ساتھی ہلاک ہوگئے۔
میر مرتضیٰ بھٹو کی اس ناگہانی موت کا دکھ ملک بھر میں محسوس کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور شاہنواز بھٹو کی ناگہانی اموات کے بعد یہ تیسرا سانحہ تھا جو بھٹو خاندان پر گزرا تھا۔ اس سانحہ پر بھٹو خاندان کے مخالفین کی آنکھیں بھی اشک بار تھیں۔
حکومت نے اس سانحہ کی تحقیقات کے لئے ایک تین رکنی ٹریبونل تشکیل دیا جس کے سربراہ جسٹس ناصر اسلم زاہد تھے اور ارکان میں جسٹس امان اللہ عباسی اور جسٹس ڈاکٹر غوث شامل تھے۔اس ٹریبونل نے کئی ماہ تک گواہان کے بیانات قلمبند کئے اور اس نتیجے پر پہنچا کہ مرتضیٰ بھٹو اور ان کے کارکنوں کا قتل، ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا جس کی منظوری اعلیٰ اتھارٹی نے دی تھی۔ مگر اس منصوبہ کے مطابق مرتضیٰ بھٹو کو نہیں بلکہ ان کے محافظین کو قتل کیا جانا تھا۔