1332-05-27

ابن خلدون ٭ دنیا کے مشہور مؤرخ اور عالم ابن خلدون 27 مئی 1332ء کو تیونس میں پیدا میں پیدا ہوئے۔ اس کا اصل نام عبدالرحمن اور کنیت ابو زید تھی۔ بہت کم عمری میں اس نے متعدد علوم پر دسترس حاصل کرلی۔ اس کی شہرت سے متاثر ہو کر مختلف حکمرانوں نے اسے اپنے درباروں سے وابستہ کیا مگربہت جلد اس نے گوشہ نشینی اختیار کی اور تاریخ عالم اور اس کا مقدمہ لکھنا شروع کیا۔ اس مقدمے نے ابن خلدون کو بام عروج پر پہنچا دیا اور اسے فلسفہ تاریخ کا بانی تسلیم کیا گیا۔ ابن خلدون کا یہ مقدمہ دس سال کی مدت میں مکمل ہوا جسے تکمیل کے اس نے 1377ء میں سلطان عبدالعزیز کی خدمت میں پیش کیا۔ سلطان نے اسے گراں بہا انعامات سے نوازا۔ 16مارچ 1406ء کو اس نے قاہرہ میں وفات پائی۔
1406-03-16

ابن خلدون ٭ دنیا کے مشہور مؤرخ اور عالم ابن خلدون 27 مئی 1332ء کو تیونس میں پیدا میں پیدا ہوئے۔ اس کا اصل نام عبدالرحمن اور کنیت ابو زید تھی۔ بہت کم عمری میں اس نے متعدد علوم پر دسترس حاصل کرلی۔ اس کی شہرت سے متاثر ہو کر مختلف حکمرانوں نے اسے اپنے درباروں سے وابستہ کیا مگربہت جلد اس نے گوشہ نشینی اختیار کی اور تاریخ عالم اور اس کا مقدمہ لکھنا شروع کیا۔ اس مقدمے نے ابن خلدون کو بام عروج پر پہنچا دیا اور اسے فلسفہ تاریخ کا بانی تسلیم کیا گیا۔ ابن خلدون کا یہ مقدمہ دس سال کی مدت میں مکمل ہوا جسے تکمیل کے اس نے 1377ء میں سلطان عبدالعزیز کی خدمت میں پیش کیا۔ سلطان نے اسے گراں بہا انعامات سے نوازا۔ 16مارچ 1406ء کو اس نے قاہرہ میں وفات پائی۔
1972-11-14

مولانا ظہور الحسن درس ٭14 نومبر 1972ء کو مشہور عالم دین مولانا ظہور الحسن درس نے وفات پائی اور کراچی میں قبرستان مخدوم صاحب نزد دھوبی گھاٹ کراچی میں آسودۂ خاک ہوئے۔ آپ 9 فروری 1905ء کو کراچی میں مولانا عبدالکریم درس کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ 1940ء سے 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے رکن اور اہم عہدوں پر فائز رہے۔قائداعظم آپ کو سندھ کا بہادر یارجنگ کہا کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے عید الفطر اور عید الاضحی کی نمازیں آپ ہی کی اقتداء میں ادا کیں۔ اکتوبر 1947ء میں جب عید الاضحی کی نماز کے وقت قائد اعظم کے عید گاہ میں پہنچنے میں تاخیر ہوئی اور اعلیٰ حکام نے آپ سے نماز کو کچھ وقت کے لیے مؤخر کرنے کی درخواست کی تو آپ نے کہا کہ میں قائد اعظم کے لیے نماز پڑھانے نہیں آیا ہوں بلکہ خدائے عزوجل کی نماز پڑھانے آیا ہوں چنانچہ انہوں نے صفوں کو درست کرکے تکبیر فرما دی اتنے میں قائد اعظم بھی عید گاہ پہنچ گئے اور انہوں نے پچھلی صفوں میں نماز ادا کی۔ نماز کے بعد قائد اعظم نے مولانا ظہور الحسن درس کی جرأت ایمانی کی تعریف کی اور کہا کہ ہمارے علما کو ایسے ہی کردار کا حامل ہونا چاہیے۔ مولانا ظہور الحسن درس کئی کتابوں کے مصنف تھے جن میں چشم تلطف پنجتن‘ خون کے آنسو اور تحقیق الفقہ اما فی کلمتہ الحق کے نام سرفہرست ہیں۔
1976-10-06

مفتی محمد شفیع ٭ 6 اکتوبر 1976ء کو برصغیر کے ممتاز عالم دین، تحریک پاکستان کے صف اول کے رہنما اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے وفات پائی۔ مولانا مفتی محمد شفیع 1897ء میں دیوبند میں پیدا ہوئے تھے۔ دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کی اور پھر وہیں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ 1922ء میں منصب افتاء پر فائز ہوئے اورایک طویل عرصے تک دارالعلوم دیوبند جیسے شہرہ آفاق دینی مرکز کے مفتی رہے۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے مختلف مسائل پر بڑے اہم فتاویٰ دیئے جو لاکھوں کی تعداد میں ہیں ان فتاویٰ کا انتخاب کئی ضخیم جلدوں میں شائع ہوچکا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مفتی صاحب کراچی چلے آئے۔ اور یہاں ایک عظیم دینی درس گاہ دارالعلوم کی بنیاد رکھی۔ جو اس وقت بھی کراچی میں علوم اسلامیہ کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ مولانا مفتی محمد شفیع ابتدا میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن سے بیعت تھے ان کی وفات کے بعد مولانا اشرف علی تھانوی کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے اور ان کے خلیفہ ہوگئے۔آپ مولانا اشرف علی تھانوی کے علمی، روحانی اور سیاسی جانشین تھے۔ مولانا مفتی محمد شفیع نے درس و تدریس اور خدمت افتاء کے علاوہ قرآن و حدیث فقہی مسائل اور تصوف اصلاح کے موضوعات پر بے شمار علمی اور دینی کتب تصنیف فرمائیں۔ ان تصانیف میں قرآن پاک کی تفسیر معارف القرآن کو اعلیٰ مقام حاصل ہے جو آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا نے پاکستان میں اسلامی دستور اور اسلامی قوانین کے نفاذ کے کام میں بھی بڑی سرگرمی سے حصہ لیا۔ 1949ء میں قرارداد مقاصد اور 1951ء میں 22 نکات پر مشتمل دستوری تجاویز کی ترتیب و تدوین میں آپ نے نمایاں کردار ادا کیا۔ مولانا مفتی محمد شفیع نے 6 اکتوبر 1976ء کو کراچی میں وفات پائی۔ آپ کی نماز جنازہ مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ ڈاکٹر عبدالحئی نے پڑھائی اور آپ کو دارالعلوم کراچی کے احاطے میں سپرد خاک کردیا گیا۔
1980-04-11

مولانا احتشام الحق تھانوی ٭11 اپریل 1980ء کو پاکستان کے نامور عالم دین مولانا احتشام الحق تھانوی بھارت کے شہر مدراس میں وفات پاگئے جہاں وہ ایک تبلیغی دورے پر گئے ہوئے تھے۔ مولانا احتشام الحق تھانوی 1915ء میں ضلع مظفر نگر کے قصبے تھانہ بھون میں پیدا ہوئے تھے آپ نامور عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی کے بھانجے تھے۔ مولانا احتشام الحق تھانوی دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل تھے۔ آپ بہت پراثر خطیب اور مبلغ تھے دہلی میں آپ ہر جمعہ کو سینٹرل سیکریٹریٹ کی مسجد میں جمعہ کی نماز سے پہلے خطبہ دیا کرتے تھے۔ اس اجتماع میں مرکزی اسمبلی اور کونسل آف اسٹیٹ کے ارکان بڑی تعداد میں شریک ہوتے تھے جن میں خواجہ ناظم الدین، مولانا ظفر علی خان، مولوی تمیز الدین، سردار عبدالرب نشتر، سر عبدالحلیم غزنوی اور آئی آئی چندریگر کے نام سرفہرست تھے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن، رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین اور بعض دیگر اہم دینی و قومی مجالس کے عہدے دار رہے۔ مولانا احتشام الحق تھانوی نے ٹنڈوالٰہ یار میں دارالعلوم دیوبند کی طرز پر جامعہ اسلامیہ کی بنیاد ڈالی تھی۔ اب تک اس جامعہ سے ہزاروں طلبہ فیض یاب ہوچکے ہیں۔ مولانا احتشام الحق تھانوی جیکب لائنز کراچی میں اپنی قائم کردہ مسجد کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔
1992-02-20

علامہ محمد اسد ٭20 فروری 1992ء کو ممتاز نو مسلم مفکر، مصنف، مبلغ، مترجم اور صحافی علامہ محمد اسد اسپین کے شہر ماربیا میں انتقال کرگئے۔ علامہ محمد اسد کا اصل نام لیوپولڈویس (Leopold Weiss)تھا اور وہ 2 جولائی 1900ء کو پولینڈ کے شہر لواو میں ایک یہودی ربی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ خاندانی روایت کے مطابق انہوں نے بچپن میں عبرانی اور آرامی زبانیں سیکھیں اور تلمود اور بائبل جیسی مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ 1926ء میں انہوں نے اسلام قبول کیا اور تقریباً 6 برس تک مدینہ منورہ اور سعودی عرب کے دیگر شہروں میں قیام اختیار کیا جہاں انہیں سلطان سعود کا تقرب حاصل ہوا۔ پھر وہ برصغیر آگئے جہاں انہیں علامہ اقبال کی صحبتوں سے استفادے کا موقع ملا بعدازاں انہوں نے کچھ وقت مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے دارالاسلام (پٹھان کوٹ) میں گزارا۔ قیام پاکستان کے بعد انہیں حکومت کے ایک محکمے اسلامی تعمیر نو کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا جہاں انہوں نے دستور پاکستان کا ایک خاکہ مرتب کرکے حکومت کو پیش کیا۔ بعدازاں ان کی تقرری وزارت خارجہ میں محکمہ مشرق وسطیٰ کے افسر اعلیٰ کی حیثیت سے ہوئی۔ آخر میں وہ اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد میں بھی شامل ہوئے۔ اس کے بعد وہ پاکستان کی وزارت خارجہ سے مستعفی ہوکر مراکش چلے گئے جہاں انہوں نے خود کوتصنیف و تالیف کے لئے وقف کردیا۔ انہوں نے قرآن مجید کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ وہ صحیح بخاری کی منتخب احادیث کو بھی انگریزی میں منتقل کررہے تھے کہ مگر عمر نے وفا نہ کی۔ ان کی مشہور تصانیف میں Islam at Crossroad اور The Road to Meccaکے نام شامل ہیں۔ علامہ محمد اسد غرناطہ (اسپین) کے مسلم قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔