1817-10-17

سرسید احمد خان ٭ مسلمانان برصغیر کے عظیم رہنما سر سید احمد خان 17 اکتوبر 1817ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ تعلیم پرانے اصولوں کے مطابق حاصل کی، 22 برس کے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا پہلے چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں۔ 1841ء میں منصفی کا امتحان پاس کرکے جج بن گئے پھر ترقی کرتے کرتے منصف عدالت خفیفہ ہوگئے، 1957ء کی جنگ آزادی کے وقت بجنور میں تھے۔ جہاں انہوں نے متعدد انگریزوں کی جان بچائی۔ سر سید احمد خان مسلمانان ہند کی ان عظیم شخصیات میں سے ایک تھے جو ایک فرد ہی نہیں ایک تحریک بھی تھے۔ جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد سر سید احمد خان مسلمانوں کی تباہی اور زبوں حالی سے سخت پریشان ہوئے۔ انہوں نے پہلے اس جنگ کے اسباب و عوامل پر ایک رسالہ ’’اسبابِ بغاوتِ ہند‘‘ تحریر کیا پھر انہوں نے مسلمانوں کو انگریزی زبان اور مغربی علوم کے حصول کے لیے مائل کرنا چاہا تاکہ وہ آہستہ آہستہ اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں۔ اس مقصد کے لیے پہلے انہوں نے 1861ء میں مراد آباد میں ایک انگریزی اسکول قائم کیا۔ پھر ایک سائنٹفک سوسائٹی قائم کی جہاں انگریزی سے تاریخ اور سیاسیات کی بعض کتابیں ترجمہ کروائیں۔ 1869ء میں انگلستان گئے اور 1875ء میں علی گڑھ میں مدرستہ العلوم قائم کیا جو بعد میں مسلم یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہوا۔ سر سید احمد خان نے متعدد کتابیں بھی لکھیں جن میں آثار الصنادید، خطباتِ احمدیہ، احکامِ طعام با اہل کتاب، قولِ متین در ابطال حرکت زمیں اور رسالہ اسبابِ بغاوت ہند زیادہ مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے آئین اکبری اور تاریخ فیروز شاہی کی تصحیح کی، تزکِ جہانگیری شائع کروائی اور تاریخ سرکشی بجنور کو مرتب کیا۔ اس کے علاوہ ایک رسالہ تہذیب الاخلاق بھی جاری کیا اور قرآن پاک کی تفسیر بھی لکھنی شروع کی۔ تقریباً نصف قرآن تک پہنچی تھی کہ سرسید کا انتقال ہوگیا۔ سرسید احمد خاں کا بطور رہنمائے قوم سب سے اہم کارنامہ ان کی تعلیمی تحریک ہے۔ انہوں نے قوم کو مغربی علوم کی اہمیت سے آگاہ کیا اور اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ مسلمانوں کو سائنس اور انگریزی علوم سیکھنے پر آمادہ کیا۔ تنگ نظر علما نے ان پر الحاد اور کفر کے فتوے بھی لگائے اور ان کا مذاق بھی اڑایا۔ مگر سرسید آخر تک اپنے عقیدے میں راسخ رہے۔ سر سید احمد خاں پہلے اتحاد مذاہب کے داعی تھے مگر ہندوئوں کی تنگ نظری دیکھ کر انہوں نے دو قومی نظریے کا واضح اعلان کیا جو آگے چل کر پاکستان کی اساس بنا۔ سرسید احمد خان نے 27 مارچ 1898ء کو وفات پائی۔ انہیں علی گڑھ میں ان کے مدرستہ العلوم میں سپرد خاک کیا گیا۔
1884-11-22

سید سلیمان ندوی ٭22 نومبرعالم اسلام کے عظیم عالم دین سید سلیمان ندوی کی تاریخ پیدائش بھی ہے اور وہ تاریخ وفات بھی ۔ وہ22نومبر 1884ء کو صوبہ بہارکے ایک گائوں دلیسنہ میں پیدا ہوئے تھے۔ 1901ء میں وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے جہاں علامہ شبلی نعمانی نے ان کی شخصیت کی تعمیر میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ مولانا شبلی نعمانی کی وفات کے بعد وہ مولاناکے قائم کردہ ادارے ندوۃ المصنّفین سے وابستہ ہوگئے۔ انہوں نے اس ادارے سے وابستگی کے دوران مولانا شبلی نعمانی کی نامکمل رہ جانے والی سیرت النبی مکمل کی۔ قیام پاکستان کے بعد سید صاحب جون 1950ء میں پاکستان چلے آئے۔ یہاں آنے کے بعد آپ نے پاکستان کے دستور کو اسلامی خطوط پر ڈھالنے کے لیے بڑا اہم کام کیا اور مختلف مکاتب فکر کے علماء کے ساتھ مل کر دستور کے رہنما اصول مرتب کیے۔ سید سلیمان ندوی نے 22 نومبر 1953ء کو کراچی میں وفات پائی۔ آپ کی نماز جنازہ مفتی محمد شفیع نے پڑھائی اور اسلامیہ کالج کراچی کے احاطے میں علامہ شبیر احمد عثمانی کے پہلومیں آسودۂ خاک ہوئے۔
1898-03-27

سرسید احمد خان ٭ مسلمانان برصغیر کے عظیم رہنما سر سید احمد خان 17 اکتوبر 1817ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ تعلیم پرانے اصولوں کے مطابق حاصل کی، 22 برس کے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا پہلے چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں۔ 1841ء میں منصفی کا امتحان پاس کرکے جج بن گئے پھر ترقی کرتے کرتے منصف عدالت خفیفہ ہوگئے، 1957ء کی جنگ آزادی کے وقت بجنور میں تھے۔ جہاں انہوں نے متعدد انگریزوں کی جان بچائی۔ سر سید احمد خان مسلمانان ہند کی ان عظیم شخصیات میں سے ایک تھے جو ایک فرد ہی نہیں ایک تحریک بھی تھے۔ جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد سر سید احمد خان مسلمانوں کی تباہی اور زبوں حالی سے سخت پریشان ہوئے۔ انہوں نے پہلے اس جنگ کے اسباب و عوامل پر ایک رسالہ ’’اسبابِ بغاوتِ ہند‘‘ تحریر کیا پھر انہوں نے مسلمانوں کو انگریزی زبان اور مغربی علوم کے حصول کے لیے مائل کرنا چاہا تاکہ وہ آہستہ آہستہ اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں۔ اس مقصد کے لیے پہلے انہوں نے 1861ء میں مراد آباد میں ایک انگریزی اسکول قائم کیا۔ پھر ایک سائنٹفک سوسائٹی قائم کی جہاں انگریزی سے تاریخ اور سیاسیات کی بعض کتابیں ترجمہ کروائیں۔ 1869ء میں انگلستان گئے اور 1875ء میں علی گڑھ میں مدرستہ العلوم قائم کیا جو بعد میں مسلم یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہوا۔ سر سید احمد خان نے متعدد کتابیں بھی لکھیں جن میں آثار الصنادید، خطباتِ احمدیہ، احکامِ طعام با اہل کتاب، قولِ متین در ابطال حرکت زمیں اور رسالہ اسبابِ بغاوت ہند زیادہ مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے آئین اکبری اور تاریخ فیروز شاہی کی تصحیح کی، تزکِ جہانگیری شائع کروائی اور تاریخ سرکشی بجنور کو مرتب کیا۔ اس کے علاوہ ایک رسالہ تہذیب الاخلاق بھی جاری کیا اور قرآن پاک کی تفسیر بھی لکھنی شروع کی۔ تقریباً نصف قرآن تک پہنچی تھی کہ سرسید کا انتقال ہوگیا۔ سرسید احمد خاں کا بطور رہنمائے قوم سب سے اہم کارنامہ ان کی تعلیمی تحریک ہے۔ انہوں نے قوم کو مغربی علوم کی اہمیت سے آگاہ کیا اور اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ مسلمانوں کو سائنس اور انگریزی علوم سیکھنے پر آمادہ کیا۔ تنگ نظر علما نے ان پر الحاد اور کفر کے فتوے بھی لگائے اور ان کا مذاق بھی اڑایا۔ مگر سرسید آخر تک اپنے عقیدے میں راسخ رہے۔ سر سید احمد خاں پہلے اتحاد مذاہب کے داعی تھے مگر ہندوئوں کی تنگ نظری دیکھ کر انہوں نے دو قومی نظریے کا واضح اعلان کیا جو آگے چل کر پاکستان کی اساس بنا۔ سرسید احمد خان نے 27 مارچ 1898ء کو وفات پائی۔ انہیں علی گڑھ میں ان کے مدرستہ العلوم میں سپرد خاک کیا گیا۔
1908-01-02

ڈاکٹر رضی الدین صدیقی ٭ پاکستان کے نامور ماہر تعلیم، سائنس دان اور دانش ور ڈاکٹر رضی الدین صدیقی 2 جنوری 1908ء کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے تھے۔ 1925ء میں انہوں نے جامعہ عثمانیہ سے گریجویشن کیا اور پھر 1928ء میں کیمبرج یونیورسٹی (برطانیہ) سے ریاضی میں ایم اے کا امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کیا، 1931ء میں جرمنی کی لیپزگ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کرنے کے بعد وہ وطن واپس آگئے اور اپنی مادر علمی، جامعہ عثمانیہ میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔1950ء میں وہ پاکستان آگئے۔ وہ پشاور یونیورسٹی، سندھ یونیورسٹی اور قائداعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور انہوں نے کچھ عرصہ پاکستان سائنس اکیڈمی کی سربراہی بھی کی۔ وہ ادب خصوصاً اقبالیات سے خصوصی شغف رکھتے تھے۔ اقبالیات کے موضوع پر ان کی دو تصانیف اقبال کا تصور زمان و مکان اور کلام اقبال میں موت و حیات ان کے اسی شغف کا مظہر ہیں۔ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کو حکومت پاکستان نے نشان امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات عطا کئے تھے۔ ٭2 جنوری 1998ء کو ڈاکٹر رضی الدین صدیقی نے اسلام آباد میں وفات پائی۔ وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
1933-11-23

ڈاکٹر علی شریعتی ٭ عالم اسلام کے مشہور دانشور اور انقلابی مفکر ڈاکٹرعلی شریعتی کی تاریخ پیدائش 23 نومبر 1933ء ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی ایران میں مشہد کے مضافات میں میزنن کے مقام پر پیدا ہوئے تھے۔ 18 برس کی عمر میں انہوں نے تدریس کے پیشے سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ 1964ء میں انہوں نے فرانس کی مشہور سوربون یونیورسٹی سے سوشیولوجی میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ وطن واپسی پر وہ دوبارہ مشہد یونیورسٹی سے منسلک ہوگئے۔ ایک مسلمان ماہر عمرانیات کی حیثیت سے انہوں نے مسلم معاشروں کے مسائل کے حل کو اسلامی اصولوں کی روشنی میں پرکھنا شروع کیا اور انہی اصولوں کے مطابق ان کے حل تجویز کیے، جلد ہی انہیں طالب علموں اور ایران کے مختلف سماجی حلقوں میں مقبولیت حاصل ہونا شروع ہوگئی جس سے خائف ہوکر حکومت ایران نے ان کا تبادلہ مشہد سے تہران کردیا۔ تہران میں ڈاکٹر علی شریعتی کی زندگی کا ایک انتہائی فعال اور روشن دور شروع ہوا۔ یہاں انہوں نے ایک مذہبی ادارے حسینیہ ارشاد میں لیکچر دینے کا سلسلہ شروع کیا جس کے شرکا کی تعداد رفتہ رفتہ ہزاروں تک پہنچ گئی۔ حکومت نے ان کی اس مقبولیت سے خوفزدہ ہوکر ان کے لیکچرز پر پابندی لگادی اور انہیں قید کی سزا سنادی تاہم عوام کے دبائو اور بین الاقوامی احتجاج کے باعث 20 مارچ 1975ء کو انہیں رہا کردیا گیا، تاہم ان پر اپنے خیالات کی اشاعت اور اپنے طالب علموں سے ملاقات کرنے پر پابندی عائد رہی۔ اس صورت حال میں ڈاکٹر علی شریعتی نے انگلینڈ ہجرت کا فیصلہ کیا تاہم وہاں بھی شاہ کے کارندے ان کا پیچھا کرتے رہے اور 19 جون 1977ء کو انہیں شہید کردیا گیا۔ ڈاکٹر علی شریعتی کے متعدد لیکچرز کتابی صورت میں شائع ہوئے اور ان کے لاتعداد کیسٹس ایران میں گھر گھر تقسیم ہوئے۔ وہ علامہ اقبال کے مداحین میں شامل تھے اور انہوں نے اقبال کے حوالے سے بھی کئی لیکچرز دیئے تھے جنہیں کتابی شکل میں بھی شائع کیا جاچکا ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی کی دیگر تصانیف میں فاطمہ فاطمہ ہے، علی اور تنہائی، حج، مارکسزم اور مغربی مغالطے، مشن آف اے فری تھنکر، علی، مذہب بمقابلہ مذہب، جہاد اور شہادت اور سرخ شیعت کے نام سرفہرست ہیں۔ ڈاکٹر علی شریعتی کو انقلابِ ایران کامعمار تسلیم کیا جاتا ہے۔ انقلاب ایران کے بعد ایران میں نہ صرف ان کی تصانیف کی اشاعت ممکن ہوئی بلکہ ان کا مجسمہ بھی نصب کیا گیا اور ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا۔
1958-11-22

ڈاکٹر عمر بن محمد دائود پوتہ ٭22 نومبر 1958ء کو پاکستان کے معروف عالم شمس العلماء ڈاکٹر عمر بن محمد دائود پوتہ وفات پاگئے وہ سہون دادو کے ایک غریب گھرانے میں25 مارچ 1896ء کوپیدا ہوئے تھے۔ 1917ء میں انہوں نے سندھ مدرستہ الاسلام کراچی سے میٹرک کے امتحان میں پورے سندھ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ 1921ء میں انہوں نے ڈی جے کالج کراچی سے بی اے کا امتحان پاس کیا اور اس مرتبہ بھی پورے سندھ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ 1923ء میں انہوں نے بمبئی یونیورسٹی سے ایم اے کے امتحان میں ٹاپ کیا جس کے بعد حکومت ہند نے انہیں اسکالر شپ پر مزید تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان بھیج دیا وہاں انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی میں’’فارسی شاعری کے ارتقا پر عربی شاعری کا اثر‘‘ کے عنوان سے مقالہ تحریر کیا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وطن واپسی کے بعد ڈاکٹر عمر بن محمد دائود پوتہ مختلف اہم مناصب پر فائز رہے۔ جن میں سندھ مدرستہ الاسلام کی پرنسپل شپ اور اساعیل کالج بمبئی میں پروفیسر شپ شامل تھی۔ 1939ء میں انہیں صوبہ سندھ میں محکمہ تعلیم کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا 1941ء میں حکومت نے انہیں شمس العلماء کے خطاب سے سرفراز کیا۔ وہ برصغیر کی آخری علمی شخصیت تھے جنہیں یہ خطاب عطا ہوا تھا۔ ڈاکٹر عمر بن محمد دائود پوتہ کا سب سے بڑا کارنامہ سندھ کی دو مشہور فارسی تواریخ چچ نامہ اور تاریخ معصومی کی ترتیب و تہذیب ہے انہوں نے عربی‘ فارسی اور انگریزی میں 28 کتابیں یادگار چھوڑیں۔ وہ آخر عمر تک علم و ادب کی خدمت کرتے رہے۔ ڈاکٹر عمر بن محمد دائود پوتہ نے 22 نومبر 1958ء کو کراچی میں وفات پائی۔ وہ بھٹ شاہ میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار کے احاطے میں آسودہ خاک ہیں۔
1977-06-19

ڈاکٹر علی شریعتی ٭ عالم اسلام کے مشہور دانشور اور انقلابی مفکر ڈاکٹرعلی شریعتی کی تاریخ پیدائش 23 نومبر 1933ء ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی ایران میں مشہد کے مضافات میں میزنن کے مقام پر پیدا ہوئے تھے۔ 18 برس کی عمر میں انہوں نے تدریس کے پیشے سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ 1964ء میں انہوں نے فرانس کی مشہور سوربون یونیورسٹی سے سوشیولوجی میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ وطن واپسی پر وہ دوبارہ مشہد یونیورسٹی سے منسلک ہوگئے۔ ایک مسلمان ماہر عمرانیات کی حیثیت سے انہوں نے مسلم معاشروں کے مسائل کے حل کو اسلامی اصولوں کی روشنی میں پرکھنا شروع کیا اور انہی اصولوں کے مطابق ان کے حل تجویز کیے، جلد ہی انہیں طالب علموں اور ایران کے مختلف سماجی حلقوں میں مقبولیت حاصل ہونا شروع ہوگئی جس سے خائف ہوکر حکومت ایران نے ان کا تبادلہ مشہد سے تہران کردیا۔ تہران میں ڈاکٹر علی شریعتی کی زندگی کا ایک انتہائی فعال اور روشن دور شروع ہوا۔ یہاں انہوں نے ایک مذہبی ادارے حسینیہ ارشاد میں لیکچر دینے کا سلسلہ شروع کیا جس کے شرکا کی تعداد رفتہ رفتہ ہزاروں تک پہنچ گئی۔ حکومت نے ان کی اس مقبولیت سے خوفزدہ ہوکر ان کے لیکچرز پر پابندی لگادی اور انہیں قید کی سزا سنادی تاہم عوام کے دبائو اور بین الاقوامی احتجاج کے باعث 20 مارچ 1975ء کو انہیں رہا کردیا گیا، تاہم ان پر اپنے خیالات کی اشاعت اور اپنے طالب علموں سے ملاقات کرنے پر پابندی عائد رہی۔ اس صورت حال میں ڈاکٹر علی شریعتی نے انگلینڈ ہجرت کا فیصلہ کیا تاہم وہاں بھی شاہ کے کارندے ان کا پیچھا کرتے رہے اور 19 جون 1977ء کو انہیں شہید کردیا گیا۔ ڈاکٹر علی شریعتی کے متعدد لیکچرز کتابی صورت میں شائع ہوئے اور ان کے لاتعداد کیسٹس ایران میں گھر گھر تقسیم ہوئے۔ وہ علامہ اقبال کے مداحین میں شامل تھے اور انہوں نے اقبال کے حوالے سے بھی کئی لیکچرز دیئے تھے جنہیں کتابی شکل میں بھی شائع کیا جاچکا ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی کی دیگر تصانیف میں فاطمہ فاطمہ ہے، علی اور تنہائی، حج، مارکسزم اور مغربی مغالطے، مشن آف اے فری تھنکر، علی، مذہب بمقابلہ مذہب، جہاد اور شہادت اور سرخ شیعت کے نام سرفہرست ہیں۔ ڈاکٹر علی شریعتی کو انقلابِ ایران کامعمار تسلیم کیا جاتا ہے۔ انقلاب ایران کے بعد ایران میں نہ صرف ان کی تصانیف کی اشاعت ممکن ہوئی بلکہ ان کا مجسمہ بھی نصب کیا گیا اور ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا۔
1997-12-07

علی عباس جلال پوری ٭7 دسمبر 1997ء کو فلسفہ کے ممتاز استاد، مؤرخ، نقاد، دانشور اور مترجم پروفیسر سید علی عباس جلال پوری وفات پاگئے۔ علی عباس جلال پوری 1914ء میں جلال پور شریف ضلع جہلم میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی اردو، فلسفہ اور فارسی میں ایم اے کی ڈگریاں طلائی تمغوں کے ساتھ حاصل کیں اور تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔ علی عباس جلال پوری کا شمار پاکستان کے ان اکابر اہل فلسفہ اور فارسی میں ہوتا تھا جو قدیم و جدید، فلسفے پر عبور رکھتے تھے۔ ان کی معروف تصانیف میں روح عصر، روایات فلسفہ، مقامات وارث شاہ، عام فکری مغالطے، وحدت الوجودتے پنجابی شاعری، تاریخ کا نیا موڑ، کائنات اور انسان، روایات تمدن قدیم، خردنامہ جلال پوری، مقالات جلال پوری، جنسیاتی مطالعے، رسوم اقوام اور اقبال کا علم کلام کے نام سرفہرست ہیں۔ وہ جلال پور شریف ضلع جہلم میں آسودۂ خاک ہیں۔
1998-01-02

ڈاکٹر رضی الدین صدیقی ٭ پاکستان کے نامور ماہر تعلیم، سائنس دان اور دانش ور ڈاکٹر رضی الدین صدیقی 2 جنوری 1908ء کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے تھے۔ 1925ء میں انہوں نے جامعہ عثمانیہ سے گریجویشن کیا اور پھر 1928ء میں کیمبرج یونیورسٹی (برطانیہ) سے ریاضی میں ایم اے کا امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کیا، 1931ء میں جرمنی کی لیپزگ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کرنے کے بعد وہ وطن واپس آگئے اور اپنی مادر علمی، جامعہ عثمانیہ میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔1950ء میں وہ پاکستان آگئے۔ وہ پشاور یونیورسٹی، سندھ یونیورسٹی اور قائداعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور انہوں نے کچھ عرصہ پاکستان سائنس اکیڈمی کی سربراہی بھی کی۔ وہ ادب خصوصاً اقبالیات سے خصوصی شغف رکھتے تھے۔ اقبالیات کے موضوع پر ان کی دو تصانیف اقبال کا تصور زمان و مکان اور کلام اقبال میں موت و حیات ان کے اسی شغف کا مظہر ہیں۔ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کو حکومت پاکستان نے نشان امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات عطا کئے تھے۔ ٭2 جنوری 1998ء کو ڈاکٹر رضی الدین صدیقی نے اسلام آباد میں وفات پائی۔ وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔