1275-02-19

حضرت لعل شہباز قلندر ٭19 فروری 1275ء مطابق 21 شعبان 673ھ سندھ کے مشہور صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندر کی تاریخ وفات ہے۔ حضرت لعل شہباز قلندر کا اصل نام سید محمد عثمان مروندی تھا اور آپ کا سلسلہ نسب گیارہ واسطوں سے حضرت امام جعفر صادقؑ سے ملتا ہے۔آپ 1177ء مطابق 573ھ میں مروند کے مقام پر پیدا ہوئے۔ آپ نے ظاہری اور باطنی علوم کی تحصیل اپنے والد بزرگوار حضرت ابراہیم کبیرالدین سے کی۔ قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد آپ نے ہندوستان بھر کی سیاحت کی اور مختلف اولیائے کرام کی صحبت سے مستفید ہوئے جن میں شیخ فرید الدین گنج شکرؒ، حضرت بہائو الدین زکریا ملتانیؒ، شیخ بوعلی قلندرؒ اور مخدوم جہانیاں جلال الدین بخاریؒ کے نام سرفہرست ہیں۔ پھر آپ نے مستقل سکونت کے لیے سہون شریف کے مقام کو منتخب کیا اور وہاں رشد و ہدایت کا سلسلہ شروع کیا۔ آپ ہمیشہ سرخ رنگ کا لباس زیب تن کرتے اس لیے آپ کو لعل کا خطاب عطا ہوا۔ شہباز کا خطاب آپ کو اس لیے دیا گیا کہ ایک مرتبہ آپ نے اپنے ایک مرید کو بے وجہ پھانسی سے بچانے کے لیے ایک جست لگائی اور اسے پھانسی سے بچالیا جبکہ قلندر کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ آپ کا تعلق سلسلہ قلندریہ سے ہے۔ آپ نے 19 فروری 1275ء مطابق 21 شعبان 673 ھ کو سہون میں وفات پائی،جہاں آپ کا مزار مبارک آج بھی مرجع خلائق ہے۔
1469-11-08

بابا گرو نانک ٭ سکھ مذہب کے بانی باباگرو نانک کی تاریخ پیدائش 8 نومبر1469ء ہے۔ وہ ننکانہ صاحب، ضلع شیخوپورہ میں پیدا ہوئے تھے۔ بابا گرونانک، اسلام اور ہندو مت دونوں مذاہب کے گرویدہ تھے اور دونوں مذاہب کے پیروکاروں کو ایک دوسرے کا احترام کرنے کی تعلیم دیتے تھے۔ انہوں نے سکھ مذہب کی بنیاد رکھی اور 10 اکتوبر 1539ء کو وفات پائی۔
1539-10-10

بابا گرو نانک ٭ سکھ مذہب کے بانی باباگرو نانک کی تاریخ پیدائش 8 نومبر1469ء ہے۔ وہ ننکانہ صاحب، ضلع شیخوپورہ میں پیدا ہوئے تھے۔ بابا گرونانک، اسلام اور ہندو مت دونوں مذاہب کے گرویدہ تھے اور دونوں مذاہب کے پیروکاروں کو ایک دوسرے کا احترام کرنے کی تعلیم دیتے تھے۔ انہوں نے سکھ مذہب کی بنیاد رکھی اور 10 اکتوبر 1539ء کو وفات پائی۔
1951-08-30

پیر سید جماعت علی شاہ ٭30 اگست 1951ء کوجدوجہد آزادی کے رہنما اور نامور عالم دین، امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ وفات پاگئے۔ آپ 1841ء میں علی پور سیداں (ضلع نارووال) میں پیدا ہوئے تھے۔ حصول تعلیم کے بعد آپ نے تبلیغ اسلام کے سلسلے میں گراں قدر خدمات انجام دیں اور ہزاروں ہندوئوں ، سکھوں اور قادیانیوں کو دائرئہ اسلام میں داخل کیا۔ آپ تحریک پاکستان کے بھی زبردست حامی تھے اور قائداعظم محمد علی جناح آپ کی بڑی قدر کرتے تھے۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ آپ کا مزار علی پور سیداں میں مرجع خلائق ہے۔
1978-07-23

بابا ذہین شاہ تاجی ٭23 جولائی 1978ء کو پاکستان کی معروف روحانی و علمی شخصیت حضرت بابا ذہین شاہ تاجی نے کراچی میں وفات پائی اور میوہ شاہ قبرستان میں آستانہ تاجیہ میں آسودۂ خاک ہوئے۔ حضرت بابا ذہین شاہ تاجی کا اصل نام محمد طاسین فاروقی تھا اور آپ 1904ء میں قصبہ کھنڈیلہ ضلع توڑاوائی جے پور میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے والد پیرزادہ خواجہ دیدار بخش فاروقی نے آپ کی تعلیم کا بڑا معقول انتظام کیا، چنانچہ بابا ذہین شاہ تاجی عربی، فارسی، اردو، ہندی، سنسکرت اور انگریزی تمام زبانیں جانتے تھے اور متعدد علوم پر حاوی تھے۔ آپ بابا تاج الدین ناگپوریؒ کے خلیفہ حضرت بابا یوسف شاہ تاجی سے بیعت تھے اور ان کے خلیفہ اور سجادہ نشین تھے۔ حضرت بابا ذہین شاہ تاجی نے بابا تاج الدین ناگپوریؒ کا تذکرہ تاج الاولیا کے نام سے مرتب کیا تھا۔ آپ نے منصور حلاج کی کتاب الطواسین کا ترجمہ بھی کیا تھا اور وہابیت اور اسلام کے نام سے ایک وقیع کتاب بھی تحریر کی تھی۔ آپ ایک اچھے شاعر بھی تھے اور آپ کے کئی شعری مجموعے بھی اشاعت پذیر ہوئے تھے۔ آپ کی ایک نعت کا ایک بے مثال شعر ہے : خوش رہیں تیرے دیکھنے والے ورنہ کس نے خدا کو دیکھا ہے