1894-09-04

محمد یوسف دہلوی ٭ پاکستان کے معروف خطاط محمد یوسف دہلوی 4 ستمبر 1894ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد منشی محمد الدین جنڈیالوی بھی اپنے زمانے کے معروف خطاط تھے۔ انہیں 1932ء میں غلاف کعبہ کی خطاطی کا شرف حاصل ہوا تھا تاہم یوسف دہلوی نے اپنے والد کی تقلید کرنے کی بجائے عہد شاہجہانی کے مشہور خطاط، عبدالرشید دیلمی کے کام کا بہ نظر عمیق مطالعہ کیا اور اپنی اجتہادی صلاحیتوں کو کام میں لاکر ایک نئی اور خوب صورت روش ایجاد کی جسے دہلوی طرز نستعلیق کہا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ نے وزیراعظم لیاقت علی خان کے اصرار اور ڈاکٹر ذاکر حسین کی کوششوں سے پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر خطاطی کی بعدازاں آپ پاکستان آگئے اور پاکستان کے سکوں پر حکومت پاکستان کے خوب صورت طغریٰ کی تخلیق اور خطاطی کا کام سرانجام دیا۔ ریڈیو پاکستان کے مونوگرام پر قرآنی آیت قُولُوالِلنَّاسِ حُسناً کی خطاطی بھی آپ کے موقلم کا نتیجہ ہے۔ ٭11 مارچ 1977ء کو پاکستان کے معروف خطاط محمد یوسف دہلوی نے ٹریفک کے ایک حادثے میں کراچی میں وفات پائی۔
1897-09-21

عبدالرحمن چغتائی ٭21 ستمبر 1897ء پاکستان کے عظیم مصور‘ جناب عبدالرحمن چغتائی کی تاریخ پیدائش ہے۔ جناب عبدالرحمن چغتائی لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق عہد شاہ جہانی کے مشہور معمار احمد معمار کے خاندان سے تھے جنہوں نے تاج محل آگرہ‘ جامع مسجد دہلی اور لال قلعہ دہلی کے نقشے تیار کیے تھے۔ 1914ء میں انہوں نے میو اسکول آف آرٹس لاہور سے ڈرائنگ کا امتحان امتیازی انداز میں پاس کیا۔ اس دوران انہوں نے استاد میراں بخش سے خاصا استفادہ کیا پھر میو اسکول ہی میں تدریس کے پیشے سے منسلک ہوگئے۔ 1919ء میں لاہور میں ہندوستانی مصوری کی ایک نمائش نے ان کی طبیعت پر مہمیز کا کام کیا اور اس کے بعد انہوں نے اپنے اسکول کے پرنسپل کے مشورے پر اپنی تصاویر کلکتہ کے رسالے ’’ماڈرن ریویو‘‘ میں اشاعت کے لیے بھیجیں۔ یہ تصاویر شائع ہوئیں تو ہر طرف چغتائی کے فن کی دھوم مچ گئی۔ اسی زمانے میں انہوں نے مصوری میں اپنے جداگانہ اسلوب کی بنیاد ڈالی جو بعد ازاں چغتائی آرٹ کے نام سے مشہور ہوئی۔ 1928ء میں انہوں نے ’’مرقع چغتائی‘‘ شائع کیا جس میں غالب کے کلام کی مصورانہ تشریح کی گئی تھی۔ یہ اردو میں اپنے طرز کی پہلی کتاب تھی جس کی شاندار پذیرائی ہوئی۔ 1935ء میں غالب کے کلام پر مبنی ان کی دوسری کتاب ’’نقش چغتائی‘‘ شائع ہوئی۔ یہ کتاب بھی بے حد مقبول ہوئی۔ اس کے بعد ہندوستان اور ہندوستان سے باہر چغتائی کے فن پاروں کی متعدد نمائشیں منعقد ہوئیں جن کی فن کے قدر دانوں نے دل کھول کر پذیرائی کی۔ ان کے فن پاروں کے کئی مزید مجموعے بھی شائع ہوئے جن میں چغتائی پینٹنگز اور عملِ چغتائی کے نام بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد عبدالرحمن چغتائی نے نہ صرف پاکستان کے ابتدائی چار ڈاک ٹکٹوں میں سے ایک ڈاک ٹکٹ ڈیزائن کیا بلکہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کے مونوگرام بھی تیار کیے جو آج بھی ان کے فن کی زندہ یادگار ہیں۔ عبدالرحمن چغتائی ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ ان کے افسانوں کے دو مجموعے ’’لگان‘‘ اور ’’کاجل‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔ 17 جنوری 1975ء کو جناب عبدالرحمن چغتائی لاہور میں وفات پاگئے۔
1922-08-28

آذرذوبی ٭پاکستان کے نامور مصور، مجسمہ ساز اور درون خانہ آرائش کے ماہر آذرزوبی کا اصل نام عنایت اللہ تھا اور وہ 28 اگست 1922ء کو قصور میں پیدا ہوئے تھے۔ 1943ء میں انہوں نے میو اسکول آف آرٹ لاہور سے مصوری کی تعلیم مکمل کی۔ 1950ء سے 1953ء کے دوران انہوں نے اسکالر شپ پراٹلی میں مصوری کی مزید تعلیم حاصل کی اور 1954ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس میں اپنی مصوری کی پہلی سولو نمائش کی۔ بعدازاں وہ کراچی منتقل ہوگئے جہاں 1956ء میں انہوں نے شعور کے نام سے ایک خوب صورت ادبی جریدہ جاری کیا۔ اسی دوران وہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے اسکول آف آرٹس میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے اوراس اسکول کے پرنسپل بھی رہے۔ 1968ء میں انہوں نے اسکول آف ڈیکور کے نام سے مصوری،مجسمہ سازی اوردرون خانہ آرائش کی تربیت کا ایک ادارہ قائم کیا۔ 1980ء میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ یکم ستمبر 2001ء کو آذرزوبی کراچی میں وفات پاگئے اور کراچی ہی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
1926-07-07

احمد پرویز ٭7جولائی 1926ء پاکستان کے نامور مصور احمد پرویز کی تاریخ پیدائش ہے۔ احمد پرویز 7جولائی 1926ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی تعلیم سینٹ جوزف کالج، بارہ مولا اور گورڈن کالج راولپنڈی میں حاصل کی۔ 1952ء میں ان کی مصوری کی پہلی نمائش پنجاب یونیورسٹی لاہور کے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ میں منعقد ہوئی جسے اہل فن نے بے حد سراہا۔ 1955ء سے 1964ء تک کا عرصہ انہوں نے لندن میں اور پھر 1966ء سے 1969ء تک کا عرصہ نیویارک میں بسر کیا۔ احمد پرویز تجریدی مصوری میں ایک علیحدہ اور منفرد اسلوب کے مالک تھے۔ زندگی کے آخری دورمیں انہوں نے اپنے لئے گلدان اور پھول کے موضوع کا انتخاب کیا تھا اور اس موضوع پر لاتعداد تصویریں بنائی تھیں۔ تیز اور شوخ رنگ ان کی مصوری کی ایک خاص شناخت تھے اور شاید ان کی ذات کا اظہار بھی۔ 1978ء میں حکومت پاکستان نے احمد پرویز کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ انہوں نے 5 اکتوبر 1979ء کو صرف 53 برس کی عمرمیں کراچی میں وفات پائی۔ وہ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
1975-01-17

عبدالرحمن چغتائی ٭17 جنوری 1975ء کو پاکستان کے عظیم مصور‘ جناب عبدالرحمن چغتائی لاہور میں وفات پا گئے۔ جناب عبدالرحمن چغتائی 21 ستمبر 1897ء کو لاہور ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق عہد شاہ جہانی کے مشہور معمار احمد معمار کے خاندان سے تھے جنہوں نے تاج محل آگرہ‘ جامع مسجد دہلی اور لال قلعہ دہلی کے نقشے تیار کیے تھے۔ 1914ء میں انہوں نے میو اسکول آف آرٹس لاہور سے ڈرائنگ کا امتحان امتیازی انداز میں پاس کیا اس دوران انہوں نے استاد میراں بخش سے خاصا استفادہ کیا پھر میو اسکول ہی میں تدریس کے پیشے سے منسلک ہوگئے۔ 1919ء میں لاہور میں ہندوستانی مصوری کی ایک نمائش نے ان کی طبیعت پر مہمیز کا کام کیا اور اس کے بعد انہوں نے اپنے اسکول کے پرنسپل کے مشورے پر اپنی تصاویر کلکتہ کے رسالے ماڈرن ریویو میں اشاعت کے لیے بھیجیں۔ یہ تصاویر شائع ہوئیں تو ہر طرف چغتائی کے فن کی دھوم مچ گئی۔ اسی زمانے میں انہوں نے مصوری میں اپنے جداگانہ اسلوب کی بنیاد ڈالی جو بعد ازاں چغتائی آرٹ کے نام سے مشہور ہوئی۔ 1928ء میں انہوں نے مرقع چغتائی شائع کیا جس میں غالب کے کلام کی مصورانہ تشریح کی گئی تھی۔ یہ اردو میں اپنے طرز کی پہلی کتاب تھی جس کی شاندار پذیرائی ہوئی۔ 1935ء میں غالب کے کلام پر مبنی ان کی دوسری کتاب نقش چغتائی شائع ہوئی۔ یہ کتاب بھی بے حد مقبول ہوئی۔اس کے بعد ہندوستان اور ہندوستان سے باہر چغتائی کے فن پاروں کی متعدد نمائشیں منعقد ہوئیں جن کی فن کے قدر دانوں نے دل کھول کر پزیرائی کی ان کے فن پاروں کے کئی مزید مجموعے بھی شائع ہوئے جن میں چغتائی پینٹنگز اور عملِ چغتائی کے نام بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد عبدالرحمن چغتائی نے نہ صرف پاکستان کے ابتدائی چار ڈاک ٹکٹوں میں سے ایک ڈاک ٹکٹ ڈیزائن کیا بلکہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کے مونوگرام بھی تیار کیے جو آج بھی ان کے فن کی زندہ یادگار ہیں۔ عبدالرحمن چغتائی ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ ان کے افسانوں کے دو مجموعے لگان اور کاجل شائع ہوچکے ہیں۔
1975-01-27

شاکر علی ٭27 جنوری 1975ء کو پاکستان میں تجریدی مصوری کے بانی اور نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے سابق پرنسپل جناب شاکر علی انتقال کرگئے۔ شاکر علی 6 مارچ 1914ء کو رام پور میں پیدا ہوئے تھے۔ مصوری کی ابتدائی تعلیم جے جے اسکول آف آرٹس بمبئی سے حاصل کرنے کے بعد وہ انگلستان چلے گئے جہاں انہوں نے فن مصوری کا تین سالہ کورس مکمل کیا۔ انہیں کچھ عرصہ فرانس کے ممتاز مصور آندرے لاہوتے (Andre L'Hote) کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ 1951ء میں پاکستان آگئے اور 1952ء میں میو اسکول آف آرٹس لاہور سے وابستہ ہوگئے جو بعد میں نیشنل کالج آف آرٹس کہلانے لگا۔ 1961ء میں وہ اسی کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور 1973ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ شاکر علی پاکستان میں تجریدی مصوری کے ساتھ ساتھ تجریدی خطاطی کے بانیوں میں بھی شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے آیات قرآنی کو تجریدی انداز میں لکھنے کی جو بنا ڈالی اسے بعد ازاں حنیف رامے‘ صادقین‘ آفتاب احمد‘ اسلم کمال‘ شفیق فاروقی‘ نیر احسان رشید‘ گل جی اور شکیل اسماعیل نے بام عروج تک پہنچا دیا۔ حکومت پاکستان نے فن مصوری میں ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 1962ء میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور 1971ء میں ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔ پاکستان کے محکمہ ڈاک نے ان کی وفات کے بعد 19 اپریل 1990ء اور 14اگست 2006ء کو ان کی مصوری اور تصویر سے مزین دو ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیے ۔ شاکر علی کا انتقال 27 جنوری 1975ء کو لاہور میں ہوا۔ وہ لاہور میں گارڈن ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کی لوح مزار پر یہ عبارت درج ہے جو محترمہ کشور ناہید کے ذہن رسا کی تخلیق ہے: چڑیوں‘ پھول اور چاند کا مصور شاکر علی 6 مارچ 1914ء کو رام پور کے افق پر طلوع ہوا اور 27 جنوری 1975ء کو لاہور کی سرزمین میں مدفون۔
1977-03-11

محمد یوسف دہلوی ٭ پاکستان کے معروف خطاط محمد یوسف دہلوی 4 ستمبر 1894ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد منشی محمد الدین جنڈیالوی بھی اپنے زمانے کے معروف خطاط تھے۔ انہیں 1932ء میں غلاف کعبہ کی خطاطی کا شرف حاصل ہوا تھا تاہم یوسف دہلوی نے اپنے والد کی تقلید کرنے کی بجائے عہد شاہجہانی کے مشہور خطاط، عبدالرشید دیلمی کے کام کا بہ نظر عمیق مطالعہ کیا اور اپنی اجتہادی صلاحیتوں کو کام میں لاکر ایک نئی اور خوب صورت روش ایجاد کی جسے دہلوی طرز نستعلیق کہا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ نے وزیراعظم لیاقت علی خان کے اصرار اور ڈاکٹر ذاکر حسین کی کوششوں سے پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر خطاطی کی بعدازاں آپ پاکستان آگئے اور پاکستان کے سکوں پر حکومت پاکستان کے خوب صورت طغریٰ کی تخلیق اور خطاطی کا کام سرانجام دیا۔ ریڈیو پاکستان کے مونوگرام پر قرآنی آیت قُولُوالِلنَّاسِ حُسناً کی خطاطی بھی آپ کے موقلم کا نتیجہ ہے۔ ٭11 مارچ 1977ء کو پاکستان کے معروف خطاط محمد یوسف دہلوی نے ٹریفک کے ایک حادثے میں کراچی میں وفات پائی۔
1978-10-18

استاد اللہ بخش ٭استاد اللہ بخش پاکستان کی مصوری کی تاریخ کا ایک معتبر اور محترم نام ہے۔ ان کا تعلق مصوری کے اس اسلوب سے تھا جس کی جڑیں ہماری اپنی مٹی سے پھوٹتی ہیں۔ استاد اللہ بخش 1895ء میں وزیر آباد کے مقام پر پیدا ہوئے۔ پانچ برس کی عمر میں وہ ماسٹر عبداللہ آرٹسٹ کے ہاں بورڈ نویسی کا کام سیکھنے کے لئے بھیج دیئے گئے۔ کچھ دنوں بعد وہ کلکتہ چلے گئے جہاں ان کی ملاقات آغا حشر کاشمیری سے ہوئی اور انہیں پردوں پر سینریاں بنانے کا کام مل گیا۔ 1919ء میں استاداللہ بخش تجربے اور مہارت سے آراستہ ہوکر واپس لاہور پہنچ گئے۔ اب ان کے ہاتھ میں صفائی پیدا ہوچکی تھی۔ یہاں انہوں نے منشی محبوب عالم کے پیسہ اخبار میں کمرشل آرٹسٹ کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد ان کا رجحان پنجاب کی دیہاتی زندگی کی جانب ہوا۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ پنجاب کی ثقافت کو اپنی مصوری کا موضوع بنایا بلکہ پنجاب کی رومانی داستانوں کے لافانی کرداروں ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال اور مرزا صاحباں کو مصورانہ تخیل سے چار چاند لگا دیئے۔ استاد اللہ بخش ایک طویل عرصہ تک مہاراجہ پٹیالہ کے دربار سے وابستہ رہے اور اس کے محل کے مختلف گوشوں کو اپنے فن پاروں سے مزین کرتے رہے۔ مہاراجہ کے انتقال کے بعد وہ لاہور واپس آگئے۔ پھر تمام عمر یہیں اپنے علم کا فیض پھیلاتے رہے۔ 18 اکتوبر 1978ء کو پاکستان کے اس عظیم مصور کا انتقال ہوگیا۔ انہیں حکومت پاکستان نے تمغہ حسن کارکردگی اور تمغہ امتیاز سے نوازاتھا۔ 24 دسمبر 1991ء کو حکومت پاکستان نے ان کے پورٹریٹ اور پینٹنگ سے مزین ایک یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔
1978-12-09

حاجی محمد شریف ٭9 دسمبر 1978ء کو پاکستان کے نامور مصور حاجی محمد شریف لاہور میں انتقال کرگئے اور لاہور ہی میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ حاجی محمد شریف 1889ء میں ریاست پٹیالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے دادا اور والد دونوں ریاست پٹیالہ کے درباری مصور تھے۔ حاجی محمد شریف نے مصوری کے اسرار و رموز اپنے والد بشارت اللہ خان کے ایک شاگرد لالہ شائورام اور استاد محمد حسین خان سے سیکھے اور1906ء میں مہاراجہ پٹیالہ کے دربار سے وابستہ ہوگئے۔ 1924ء میں ان کی منی ایچر پینٹنگز کی ایک نمائش لندن میں ہوئی جس سے ان کی بڑی شہرت ہوئی اور انہیں ممبر آف برٹش ایمپائر کا اعزاز عطا کیا گیا۔ 1945ء میں وہ لاہور آگئے اور میو اسکول آف آرٹ میں مصوری کی تعلیم دینے لگے۔1965ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ سے بطور وزیٹنگ پروفیسر منسلک ہوئے اور ایک طویل عرصہ تک طلبہ کو مصوری کی تعلیم سے آراستہ کرتے رہیں۔ ان کے قدر دانوں میں صدر ایوب خان اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو دونوں شامل تھے۔ حکومت پاکستان مصوری میں ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ 24 دسمبر 1991ء کو پاکستان کے محکمہ ڈاک نے ان کی تصویر اور پینٹنگ سے مزین ایک خوب صورت ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا جسے عادل صلاح الدین نے ڈیزائن کیا تھا۔
1979-01-23

ایم ایم شریف ٭23 جنوری 1979ء کو صوبہ سرحد کے نامور خطاط، نقاش اور مصور جناب ایم ایم شریف نے پشاور میں وفات پائی اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ ایم ایم شریف کا تعلق گوجرانوالہ کے ایک خطاط گھرانے سے تھا۔ وہ نامور خطاط احمد علی منہاس کے بھتیجے تھے۔وہ 1901ء میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے تاہم انہوں نے عمر کا بیشتر حصہ پشاور میں بسر کیا۔ انہوں نے خطاطی میں نئی نئی جدتیں اور طرز پیدا کیں اور اسے مصوری سے ہم آمیز کیا۔ آپ کے ایک خط، خط ابری کے موجد تسلیم کئے جاتے ہیں۔ آپ کے فن کے نمونے آپ کی کتاب یدبیضا میںموجود ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کس قدر قادر القلم تھے۔ پاکستان کے نامور خطاط حافظ یوسف سدیدی ڈرائنگ میں آپ کے شاگرد تھے۔